ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد فلاح و بہبود میں صرف کر دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
بلوچستان میں جہاں مالی اعتبار سے درمیانے اور نچلے درجے کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں نوے فیصد خیرات اداروں اور تنظمیوں کے بجائے براہ راست مستحق افراد کو دی جاتی ہے۔
اس ریسرچ کے مطابق زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم ہوتی ہے مگر وہ باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ یہ امداد زیادہ تر مستحق افراد کو دی جاتی ہے۔ ان افراد تک اداروں کی نسبت پہنچنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
اداروں کو دی جانے والی مالی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو دی جاتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر پیسہ جمع کرنے اور محلوں چندے کے لیے ڈبوں کے رکھے جانے سے یہ ادارے زیادہ رقم جمع کر لیتے ہیں۔
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ اس خوف سے کہ کہیں ان کی دی ہوئی رقم ضائع نہ ہو جائے، عام فلاحی تنظیموں کو کم دیتے ہیں اور زیادہ مستحق غریب افراد کو رقم یا اشیاء عطیہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں صاحب حیثیت افراد نہ صرف اپنے قریبی مستحق افراد کی مدد کرتے ہیں بلکہ ان کی دولت سے خیراتی اداروں کی بھی مالی مدد کی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مالی طور پر خوش حال افراد کے پاس خیراتی اداروں کے بارے میں معلومات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ بعض اوقات ان خیراتی اداروں سے منسلک بھی ہوتے ہیں۔
بلوچستان میں جہاں مالی اعتبار سے درمیانے اور نچلے درجے کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں نوے فیصد خیرات اداروں اور تنظمیوں کے بجائے براہ راست مستحق افراد کو دی جاتی ہے۔
0 Comments