جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے ، میں اسے کوئی نام دینے سے قاصر ہوں۔ اگر کوئی فلسطین کی آزادی کے لئے تحریک چلا رہا ہو اور جا کر نیتن یاہو کو اس تحریک کا قائد بنا لے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟۔ اگر کوئی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ساری زندگی سرگرم عمل رہا ہو لیکن آخر میں جا کر خادم حسین رضوی کے ہاتھ پر بیعت کر لے تو آپ اسے کیا نام دیں گے؟۔ اگر کوئی سیاست سے دوغلے پن اور خوشامد کے کلچر کو ختم کرنے کے لئے ساری زندگی جتن کرتا رہا ہو لیکن آخر میں جا کر نوازشریف کو اس تحریک کا قائد اور مشاہد حسین سید کو اپنا ساتھی بنا لے تو اس شخص کی عقل پر کیا آپ ماتم نہیں کریں گے۔
اگر کوئی سیاست سے بدتمیزی کے کلچر کو ختم کرنے کے لئے ساری زندگی سرگرم عمل رہا ہو لیکن آخر میں جا کر عمران خان سے یہ توقعات وابستہ کر لے تو اس شخص کو آپ پاگل نہیں سمجھیں گے۔ اگر کوئی سیاست سے جھوٹ کو ختم کرنے کا متمنی ہو لیکن اس مشن کے لئے شیخ رشید احمد کو اپنا قائد بنا لے تو خود اس شخص کو جھوٹا نہیں سمجھا جائے گا۔ یقین جانیے اس ملک کے حقیقی مالک آج کل یہی کر رہے ہیں اور اس لئے میں اس روش کو کوئی نام دینے سے قاصر ہوں۔ میاں نوازشریف کو کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر فارغ کیا جا رہا تھا لیکن اس شخص کو ان کے خلاف تحریک کی قیادت سونپ دی گئی جو پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں کرپشن کے سمبل (Symbol) ہیں۔
اسی طرح سالوں سے عمران خان کو میاں نوازشریف کو آئوٹ کرنے کے لئے تیار کیا جا رہا تھا لیکن جاتے جاتے ان کو آصف علی زرداری کے قدموں میں بٹھا دیا گیا۔ نوازشریف کو آئوٹ کرنے کے مشن میں منتخب ایوانوں کو منڈیوں میں تبدیل کر دیا گیا اور ظاہر ہے منڈیوں سے پھر رضاربانی نہیں بلکہ مانڈوی والا ہی نکلتا ہے۔ صادق اور امین ڈھونڈنے نکلے تھے لیکن صادق سنجرانی مسلط کر دیا گیا۔ وہ سنجرانی جو سید یوسف رضاگیلانی جیسے صادق اور نواب اسلم رئیسانی جیسے امین ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے دو درجن ممبران صوبائی اسمبلی کو ایسے خریدا جیسے منڈی میں گدھوں کو خریدا جاتا ہے لیکن ہفتہ بعد پی ٹی آئی کے سینیٹرز کو ڈنڈے کے خوف سے بکریوں کی طرح ایک رسی میں باندھ کر مہار آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھما دی گئی۔
زرداری پر ایم پی ایز کی خریداری کا الزام عمران خان صاحب نے لگایا اور اپنے سینیٹرز کو ان کے قدموں میں بھی خود انہوں نے ڈالا ۔ اب کوئی بابا ہی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ عمران خان اور زرداری میں صادق کون ہے اور امین کون۔ کہتے ہیں کہ اس بے شرمی کا ارتکاب بلوچستان کی خاطر کیا گیا حالانکہ بلوچستان تو کیا پختونخوا اور فاٹا کی بھی اس سے بڑی بے توقیری اور کوئی ہو نہیں سکتی جو سینیٹ اور پھر چیئرمین کے انتخاب کے عمل میں کی گئی ۔ دنیا کو پیغام دیا گیا کہ بلوچستان کے منتخب نمائندے اپنی مرضی کے مالک نہیں بلکہ ڈنڈے یا دولت کے غلام ہیں ۔ کیا یہ بلوچستان کی خدمت ہے؟ ۔
پختونوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ توپ اور ٹینک کے آگے بھی ڈٹ جاتے ہیں لیکن سینیٹ انتخابات کے ذریعے دنیا کو پیغام دیا گیا کہ پختونخوا کے لوگوں کے منتخب ممبران نوٹ کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں ۔ کیا یہ پختونخوا کی خدمت ہے ؟۔ فاٹا کے لوگ غیرت اور وفاداری کے لئے مشہور تھے لیکن سینیٹ انتخابات اور پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ ان کے منتخب ممبران سب سے زیادہ بے ضمیر یا پھر نوٹ اور ڈنڈے کے آگے ڈھیر ہو جانے والے ہیں ۔ کیا یہ قبائلیوں کی خدمت ہے ؟۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا راستہ خود میاں نوازشریف اور ان کے اتحادیوں نے ہموار کیا لیکن آصف زرداری اور عمران خان نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میاں صاحب نے چھوٹے صوبوں اور چھوٹی قومیتوں کو نظرانداز کیا اور پارلیمنٹ کو رتی بھر اہمیت نہیں دی۔ بلوچستان اور پختونخوا میں اپنی جماعت پر توجہ دینے کی بجائے انہوں نے بلوچستان اچکزئی صاحب اور ثناء اللہ زہری کو جبکہ پختونخوا مولانا فضل الرحمان اور اقبال جھگڑا کو ٹھیکے پر دیا جبکہ خود وسطی پنجاب کے وزیراعظم بن گئے۔ وہ چمچوں اور چاپلوسوں میں گھرے رہے۔ پارلیمنٹ کو کبھی اہمیت نہیں دی۔
بلوچستان میں کرپشن کی ایسی بدترین تاریخ رقم ہوئی کہ جب ثناء اللہ زہری اور اچکزئی صاحب کی پارٹی کو اقتدار سے نکالا گیا تو پورے بلوچستان میں دو بندوں نے بھی ان کے حق میں احتجاج نہیں کیا ۔ جب اچکزئی صاحب کی جمہوریت میں ساری زندگی ان کے سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والے اکرم شاہ لالہ گورنر شپ کے لئے نااہل اور ان کے سگے بھائی اہل قرار پائیں گے تو پھر یہی ہو گا کہ عثمان کاکڑ کی جگہ مانڈوی والا لائے جائیں گے ۔ جب اتنی مار کھانے کے بعد بھی میاں نوازشریف ایک بلوچ حاصل بزنجو کو چیئرمین بنانے کے روادار نہ ہوں اور اب بھی ان کا انتخاب جنرل ضیاء الحق کا اوپننگ بیٹسمین اور اپنا تابعدار راجہ ظفرالحق ہو تو پھر ایسا ہی ہو گا رضا ربانی کی جگہ صادق سنجرانی سنبھالیں گے۔
تاہم افسوس یہ ہے کہ جس طریقے سے اب نوازشریف پر غصہ نکالا جا رہا ہے اور جس طرح زرداری اور عمران خان کے ذریعے سیاست کو بے توقیر کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے میاں نوازشریف مظلوم اور جمہوریت کی علامت بنتے جا رہے ہیں اور شاید اس سے بڑا ظلم اس ملک اور قوم کے ساتھ کوئی نہیں کیا جا سکتا۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو اس کے بعد زرداری کی سیاست کی تعریفیں کر رہے ہیں یا جو اب بھی عمران خان کو تبدیلی کی علامت باور کرا رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ زرداری سب پر بھاری نہیں۔ وہ سب کے مقابلے میں ہلکے ہو رہے ہیں ۔ جس طرح وہ ڈکٹیشن لے کر غلامی کی سیاست کر رہے ہیں، اس طرح تو کبھی عمران خان نے بھی نہیں کی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ زرداری پیپلز پارٹی پر اور عمران خان اپنی پی ٹی آئی پر بھاری ثابت ہو رہے ہیں ۔
امپائروں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر ایک ہفتہ بعد عمران خان کو آصف علی زرداری کی امامت میں سیاسی نماز کی ادائیگی کے لئے کھڑا کرنا ہے تو پھر کم ازکم زرداری صاحب کو روکتے کہ وہ پختونخوا میں عمران خان کے ایم پی ایز کو نہ توڑیں ۔ سینیٹ انتخابات سے ایک روز قبل بلاول سمیت پوری پارٹی التجائیں کر رہی تھی کہ رضاربانی کو امیدوار بنا دیا جائے لیکن صرف تین بندے یعنی آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف (تینوں وہی ہیں جن کے سروں پر کیسز کی تلوار لٹک رہی ہے ) امپائر کے خاکے میں رنگ بھرنے کے حق میں تھے۔ عمران خان کو پہلے دن اسکرپٹ دیا گیا کہ چیئرمین پی پی پی اور ڈپٹی چیئرمین پی ٹی آئی کا ہو گا ۔
اس کیلئے جہانگیر ترین کی زرداری صاحب کے نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کروائی گئیں لیکن جب کارکنوں اور میڈیا کا دبائو آیا تو خان صاحب مکر گئے اور یہ تاریخی جملہ کہا کہ آصف علی زرداری کے ساتھ مل جانا ایسا ہے کہ میں اپنی پوری سیاسی جدوجہد پر خاک ڈال دوں۔ اگلے دن پھر امپائر کا دبائو آیا تو خان صاحب پھر مان گئے لیکن چونکہ براہ راست پی پی پی کے چیئرمین کو ووٹ دینے سے شرما رہے تھے اس لئے یہ کلیہ نکالا گیا کہ بلوچستان کے گروپ کا چیئرمین آگے لایا جائے گا۔ چنانچہ اسی دن بلوچستان والوں کو بلایا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ چیئرمین کا خواب دیکھنا شروع کر دیں ۔
یہاں یہ مسئلہ آیا کہ صادق سنجرانی چونکہ ماضی میں پیپلز پارٹی چھوڑ چکے تھے ، اس لئے زرداری صاحب ان کی جگہ کسی اور کو سامنے لانا چاہ رہے تھے لیکن پھر جب امپائر نے دبائو ڈالا تو زرداری وہ بھی مان گئے ۔ فاٹا کے سینیٹرز صبح نوازشریف کیمپ میں جاتے اور شام کو زرداری کے کیمپ میں ۔ لیکن جب زرداری اور عمران خان کی ڈیل فائنل ہو گئی تو ان کو بھی حکم ملا کہ وہ سیدھے ہو کر بلوچستان کی امامت میں کھڑے ہوجائیں ۔ یہی حکم ایم کیوایم وغیرہ کو بھی ملا ۔ ساتھ ساتھ ایک بار پھر پیسہ بھی استعمال ہوا۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ اب سینیٹ کے چیئرمین کی کرسی پر پیپلز پارٹی کے جیالے اور آصف علی زرداری کے تابعدار رضاربانی کی جگہ کسی اور کے تابعدار صادق سنجرانی براجمان ہوں گے ۔
یوں زرداری صاحب کے قریبی دوست مولانا فضل الرحمان درست کہتے ہیں کہ اب زرداری سب پر بھاری نہیں بلکہ جو زرداری پر بھاری ہے، وہی سب پر بھاری ہے پیپلز پارٹی کی پہچان کرپشن ہے لیکن ہم جیسے لوگ اس کے اس سنگین جرم سے چشم پوشی اس بنیاد پر کر رہے تھے کہ اس کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ دوسروں کی نسبت زیادہ تھی اور رضاربانی، فرحت اللہ بابر اور قمر زمان کائرہ جیسے لوگ اس جماعت کی پہچان تھے لیکن اب جب فرحت اللہ بابر کو نکال کر اور رضاربانی کو بےعزت کر کے قمر زمان کائرہ جیسے جمہوریت پسندوں کا دل توڑا گیا تو پیپلز پارٹی میں بچا کیا؟۔
اسی طرح ہر کوئی جانتا تھا کہ عمران خان امپائر کے اشارے پر بدتمیزی کی سیاست کر رہے ہیں لیکن بہت سارے لوگ ان کے اس گناہ سے اس بنیاد پر چشم پوشی کر رہے تھے کہ وہ کرپشن کے خلاف ایک توانا آواز ہیں لیکن اب جب انہوں نے بھی بابر اعوان اور فردوس عاشق اعوان کو دست ہائے راست بنا کر آصف علی زرداری کو اپنا قائد مان لیا تو پھر لوگ ان سے کسی خیر کی توقع کیسے وابستہ کر لیں۔یہ عجیب ملک ہے ۔پہلے دو عشروں تک ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی دشمنی میں میاں نوازشریف جیسوں کو آگے کرکے پارلیمنٹ اور سیاست کو بے وقعت کیا جاتا رہا اور اب میاں نوازشریف کی دشمنی میں آصف علی زرداری اور عمران خان کو آگے کرکے پارلیمنٹ اور سیاست کو بے وقعت کیا جارہا ہے ۔ نہ جانے یہ کیسی حب الوطنی ہے ؟
0 Comments