All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

زندگی میں بس رونا ہی باقی ہے اور کچھ نہیں

سوات کے علاقے مٹہ کی لمبرو بی بی چار بیٹوں کی ماں ہیں، جن میں سے کوئی بھی اب اُن کے پاس نہیں۔ دو بیٹے پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک کی لاش مبینہ طور پر سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جانے کے کچھ عرصے بعد ملی جبکہ ایک بیٹا اور داماد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں آج بھی لاپتہ ہیں۔ لمبرو بی بی اسلام آباد میں پشتونوں کے اس احتجاجی دھرنے میں شریک رہیں جو کراچی میں قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے جاری رہا اور حال ہی میں حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوا ہے۔ 

یہ دھرنا ایک ایسا مرکز بنا جہاں مبینہ 'ریاستی ظلم' کا شکار لوگ اپنا دکھ بیان کرنے کے لیے کھنچے چلے آئے۔ لمبرو بی بی کی کہانی پاکستان میں مبینہ ریاستی جبر کی ایک طویل داستان کا حصہ ہے۔ ان کے دو بیٹے شوکت علی اور حیدر علی تین برس قبل کراچی میں ایسے پولیس مقابلوں میں مار دیے گئے جن کی سربراہی مبینہ طور پر کراچی پولیس کے وہی افسر کر رہے تھے جن پر نقیب محسود کے جعلی پولیس مقابلے کا بھی الزام ہے، یعنی راؤ انوار۔
لمبرو بی بی کے دونوں بیٹے بنارس کالونی میں چاول مل کے ٹھیکیدار تھے
لمبرو بی بی کا دعوٰی ہے کہ شوکت علی اور حیدر علی کو 10 جنوری اور 21 مارچ 2015 کو راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس اہلکار کراچی میں شاہ لطیف ٹاؤن میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اُٹھا کر لے گئے تھے۔ ’میرے دونوں بیٹے بنارس کالونی میں چاول مل کے ٹھیکیدار تھے۔ راؤ انوار میرے دو بیٹوں کو کراچی میں ہمارے گھر سے اٹھا کر لے گیا۔ میں نے بہت کوشش کی، کراچی ہائی کورٹ میں کیس بھی کیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ' اُن کے مطابق شوکت علی کو 11 مئی 2015 اور حیدر علی کو 13 جون 2015 کو مار دیا گیا۔ مئی 2015 کے ایک مقامی اخبار میں ایک خبر لگی، جس میں راؤ انوار پر جعلی پولیس مقابلے کا الزام لگایا گیا۔ لمبرو بی بی نے اسی اخبار میں چھپی اپنے دونوں بیٹوں کی خون میں لت پت تصویریں آج بھی سنبھال کر رکھی ہیں۔

اس بارے میں جب بی بی سی نے سندھ حکومت کے وزیرِ اطلاعات ناصر شاہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’نقیب محسود کے واقعے کے بعد اس طرح کی شکایات اور بھی سامنے آئی ہیں جن کی تحقیقات کے لیے بہت جلد ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں یہ ساری شکایات دیکھی جائیں گی۔‘ لمبرو بی بی نے بتایا کہ پولیس مقابلے میں اُن کے بیٹوں کو مارنے کے بعد اُن کی لاشیں 20 ہزار روپے کی ادائیگی کے بعد ملیں اور اُن کے مطابق وہ بھی تب جب راؤ انوار نے اُنھیں 'راہداری' دی۔ 'میں رکشے میں راؤ انوار کے گھر گئی۔ اُن سے اپنے بیٹوں کی لاشیں وصول کرنے کے لیے راہداری لی کیونکہ تھانے والے لاشیں نہیں دے رہے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ میرے بیٹوں کو تو آپ میرے گھر سے اُٹھا کر لے گئے، پھر کیسے پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ وہ خاموش کھڑا تھا۔'

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ لمبرو بی بی کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کا صدمہ سہنا پڑا ہو۔
لمبرو بی بی کے مطابق اُن کے ایک اور بیٹے محمد اسحاق کو سنہ 2009 میں سوات میں جاری فوجی آپریشن کے دوران مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اُن کے گھر سے اُٹھا لیا تھا۔ محمد اسحاق کی لاش تین ماہ بعد برآمد ہوئی تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا وہ سکیورٹی فورسز کی حراست میں ہلاک ہوئے یا نہیں۔ لمبرو بی بی کہتی ہیں 'تین ماہ کی کوششوں کے بعد ہمیں اُن کی قبر ملی، اُن کی قبر کو کھودا اور لاش کو اپنے قبرستان لے آئے۔' اس واقعے کے تین برس بعد ان کا ایک اور بیٹا اور داماد بھی مٹہ میں لاپتہ ہوا اور آج تک ان دونوں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔

لمبرو بی بی کے مطابق ان کے چوتھے بیٹے ذکریا کو چھ سال قبل سکیورٹی فورسز مٹہ میں گھر سے لے گئے۔ عین اُسی دن اُنھوں نے ان کے داماد احسان اللہ کو بھی اپنے گھر سے اُٹھا لیا تھا۔ وہ بھی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ سوات اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں سنہ 2007 میں طالبان کے خلاف شروع کیے جانے والے پاکستانی فوج کے آپریشن میں سینکڑوں افراد لاپتہ ہوئے جن کے لواحقین پاکستانی سکیورٹی فورسز پر انھیں لاپتہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں لیکن پاکستانی حکام ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

'میرے ایک بیٹے اور داماد کو پھر سوات سے اُٹھا کر لے گئے اور اب چھ سال ہو گئے ہیں۔ شام کے وقت وہ مجھ سے میرا بیٹا یہ کہہ کر لے گئے کہ اُنہیں بہت جلد واپس لے آئیں گے۔ رمضان میں ان کے چھ سال پورے ہو جائیں گے۔' لمبرو بی بی کی بیٹی اور بہو نے پشاور ہائی کورٹ اور اسپریم کورٹ میں اپنے شوہروں کی عدم بازیابی پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف درخواستیں بھی دی ہیں اور یہ معاملہ تاحال زیرِ سماعت ہے۔ یہ دونوں افراد اگر کسی وقت واپس آ بھی جائیں تو لمبرو بی بی انھیں صرف محسوس ہی کر پائیں گی کیونکہ ان کی یاد میں روتے روتے، سوات کی اس ماں کی بینائی جا چکی ہے۔ 'بیٹوں کی یاد میں اب میری بینائی بھی چلی گئی ہے۔ کچھ دکھائی نہیں دیتا، بس تکلیف کی زندگی ہے۔ اب ہماری زندگی میں بس رونا ہی باقی ہے اور کچھ نہیں'۔

خدائے نور ناصر
بی بی سی، اسلام آباد
 

Post a Comment

0 Comments