سپریم کورٹ میں ماورائے عدالت قتل کیے گئے نقیب اللہ محسود کے ازخود نوٹس کیس میں عدالت نے راؤ انوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگاتے ہوئے ملزم کی تلاش کے لیے ڈی جی ایف آئی اے کو انٹرپول کے ذریعے دنیا بھر کے ایئر پورٹس سے رابطہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے علاوہ عدالت نے آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی کو پولیس سے مکمل تعاون کرنے اور گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ میں نقیب اللہ محسود ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل ( آئی جی ) سندھ پولیس اور ڈی جی سول ایوی ایشن بھی پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کی طرف سے راؤ انوار کو روکا نہ گیا بلکہ ایف آئی اے امیگریشن کی بہادر بیٹی نے معطل پولیس افسر کو روکا، اگر راؤ انوار بھاگ جاتا تو پتہ نہیں وہ کہاں ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار میڈیا سے رابطے میں رہے اور وہ کراچی سے اسلام آباد آیا کسی نے انہیں کیوں نہیں پہچانا ؟ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نے راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے 36 گھنٹے دیے تھے، پولیس نے گرفتاری کے لیے ملک کے تمام ایئرپورٹس کو الرٹ کیوں نہیں کیا؟
جس پر اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ راؤ انوار نے 19 جنوری سے تمام موبائل بند کر دیے ہیں اور وہ واٹس ایپ کے ذریعے میڈیا سے رابطے میں ہیں جبکہ ہمارے پاس واٹس ایپ کو ٹریس کرنے کی سہولت موجود نہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار کی آخری لوکیشن ترنول ڈھوک پراچہ میں تھی، جس پر ہم نے ایک ٹیم لکی مروت ،ایک اسلام آباد اور ایک اندرون سندھ میں بھیجی ہے۔ سماعت کے دوران اے ڈی خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار کو پکڑنے کے لیے تمام صوبوں کے آئی جیز سے رابطہ کیا تھا جبکہ آئی بی اور آئی ایس آئی کمانڈرز کراچی کو خط بھی لکھا تھا۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار کی ساری سروس پولیس کی ہے اور انہیں پتہ ہے کہ ملزم کو کیسے پکڑا جاتا ہے، تاہم ہم تمام انسانی وسائل استعمال کر کے راؤ کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
0 Comments