آج قوم عظیم رہنماء قائد اعظم محمد علی جناح کا 141 واں یوم پیدائش منا رہی ہے سیاست میں غیرمتنازع رہنا، کمال کی بات ہے۔ اس کیلئے جس بے داغ اور اُجلے کردار کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ذاتی قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان کیا، دُنیا میں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں کہ کسی سیاست دان کے کردار کو اس کے مخالفین بھی سراہتے ہوں۔ قائداعظم محمد علی جناح سیاسیات عالم کی ایسی ہی بے مثال، غیرمعمولی اور منفرد شخصیت ہیں۔ عظمت کیا ہوتی ہے اور کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ اس بارے میں مفکرین کے اقوال بہت مل جاتے ہیں لیکن عظمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ بے غرض اور بے لوث ہو کر اجتماعی فلاح کے ایسے کام انجام دیئے جائیں، جن سے انسانوں کی بڑی تعداد کو فائدہ پہنچے۔
قائداعظم عظمت کے اصولوں پر پورا اُترتے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں ہمارے قائداعظم ہیں۔ اُن کی بے غرضی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے سخت ڈسپلن اپنی شخصیت پر نافذ کیا تھا۔ عیش، آرام اور تن آسانی کی زندگی انہوں نے کبھی نہیں گزاری۔ وہ اپنی ذاتی کامیابی اور آسائش کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ جن سخت ضوابط کی توقع وہ دوسروں سے کرتے تھے، اُن کی پابندی سب سے پہلے خود کرتے تھے۔ کام، کام اور صرف کام کا اصول دوسروں کے لئے بعد میں اور اپنے لیے پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر سی زندگی میں تخلیق پاکستان کا وہ کارنامہ سرانجام دیا، جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے۔ انہوں نے اس عظیم مقصد کے لئے ذاتی آرام کو تج دیا تھا اور اپنی صحت دائو پر لگا دی تھی۔
قائداعظم کے عمل سے اُن کی شخصیت کا اظہار ہوتا تھا۔ اُن کے قول وفعل میں تاثیر کی وجہ بھی اُن کی عملی سچائی تھی۔ اُن کی دیانت دارانہ زندگی نے اُن کی قیادت کو کرشماتی بنا دیا تھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ برصغیر کے مسلمان ان کے ایک اشارے پر ہر قربانی دینے کو تیار ہو جاتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو متحد اور مجتمع کرنے والی طاقت تھے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ جس ملک کے بانی کا کردار بے داغ اور کرپشن سے پاک ہو، جس نے سیاست وقیادت کا اعلیٰ ترین معیار طے کر دیا ہو، اس کے ملک میں سب سے بڑا بحران ہی باکردار قیادت کا پیدا ہو جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بانی پاکستان کے کردار کو سیاست کرنے کا بنیادی اصول اور وصف بنایا جاتا۔ قائداعظم کی سیاست سے یہ گُر ہر سیاست دان کو سیکھنا چاہئے تھا کہ نیک نیتی اور اخلاص ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
کردار کی بلندی نہ ہو تو کوئی سیاست دان، لیڈر نہیں بن پاتا، نہ وہ ہجوم کو قوم بنا سکتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو مسلمانانِ برصغیر کے مشکل ترین دور کا سامنا رہا۔ ان میں تقسیم در تقسیم بھی تھی اور ان کا حوصلہ بھی نچلی ترین سطح پر تھا لیکن انہوں نے ایک دل گرفتہ ہجوم کو قوم میں تبدیل کر کے تاریخ کا رُخ تبدیل کر دیا۔ بعد میں آنے والے سیاست دانوں کیلئے اُن کا یہ کردار مشعلِ راہ ہونا چاہئے تھا۔ بانی پاکستان کی مسحورکن شخصیت کے مظاہر بہت سے ہیں۔ اس تاریک دور کا اندازہ لگائیں کہ انگریز نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان، انگریز کے مظالم کا سب سے بڑا ہدف تھے، پھر تحریک خلافت کی ناکامی نے برصغیر کے مسلمانوں کو بہت مایوس کیا تھا۔
ہندو، انگریز کے اتحادی بن چکے تھے، مسلمانوں نے حالات سے تنگ آکر اجتماعی راہ فرار اختیار کر لی تھی، وہ اپنے خول میں سمٹ گئے تھے، اُن پر یاسیت طاری تھی، بے عملی نے اُن کے قویٰ مزید مضمحل کر دیئے تھے۔ پے در پے آلام نے اُن میں زندگی کی رمق کم کر دی تھی۔ شکست خوردگی اور بے چارگی اُن کا مزاج بننے لگی تھی۔ کرشماتی اور غیرمتنازع قیادت کا فقدان تھا۔ ایسے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اُن میں جو جذبہ پیدا کیا، وہ اُن کی رگوں میں تازہ خون بن کر دوڑنے لگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی قائداعظم محمد علی جناح کے بغیر ناممکن تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عظیم مقصد کے لئے منتخب کیا تھا۔
پاکستان بنتے وقت کم و بیش تمام لوگ سچے پاکستانی تھے لیکن 70 سال بعد ہم سب اپنی ضرورت اور ذات تک محدود ہیں۔ آج تک بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنی قائد اعظم جیسا کوئی ہو نہیں سکتا جنہوں نے گولی چلائے بغیر دلیل کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی۔ پاکستان معرض وجود میں آیا مجید نظامی کہتے تھے قائد اعظم پارلیمنٹ کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کے ذہن میں ایک بات نقش تھی کہ مسلمان ایسی فلاحی اور جمہوری مملکت قائم کریں۔ جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے آئین کی روشنی میں زندگی گزاریں۔ مجید نظامی اس حوالے سے کبھی مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ وہ ہر سول اور فوجی حکمران کے سامنے ڈٹ گئے۔ پاکستان اور کشمیر پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی دی اور حکمرانوں کا قبلہ درست رکھا۔
مگر افسوس آج پاکستان کو حقیقی قیادت میسر نہیں، قائد اعظم جیسی قیادت میسر نہیں وہ قیادت جس نے کانگریس میں تیزی کے ساتھ نمایاں مقام حاصل کیا۔ متحدہ ہندوستان اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے اُن کی خدمات نے انہیں کانگریس کا قابل تعریف لیڈر بنا دیا تھا اور مسلم لیگ کے حلقے بھی اُن کے مداح تھے لیکن مسلمانوں پر ہندوئوں کے بڑھتے ہوئے مظالم اور کانگریس کے متعصبانہ رویئے نے انہیں بہت بد دل کر دیا۔ ہندوستان میں وکالت وسیاست پر اپنے گہرے نقوش مرتب کرنے کے بعد قائداعظم لندن چلے گئے اور وہاں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں مسلمانوں کا عملاً کوئی لیڈر نہ تھا، چنانچہ ہندوستان واپس آکر قائداعظم نے مسلم لیگ کو مسلمانوں کی عظیم عوامی سیاسی جماعت میں تبدیل کر دیا۔
بڑی حیرت انگیز حقیقت ہے کہ قائداعظم کی زیرقیادت بہت کم عرصے میں نہ صرف مسلمانوں میں جوش وخروش پیدا ہوا بلکہ ہندو اور انگریز، مسلمانوں کو جداگانہ سیاسی قوت ماننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ قائداعظم کی قیادت تھی، جس نے مسلمانوں کی آزادی اور جداگانہ وطن کے تصور کو تحریک کی شکل دے دی۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیاست اصولوں سے بالاتر ہوتی ہے، اس میں جھوٹ، ریاکاری اور ہر طرح کا جوڑتوڑ جائز ہوتا ہے لیکن حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کی سیاست ہمیشہ دوٹوک، کھری، سچی اور صاف ستھری رہی۔ ریاکاری سے پاک اس اصولی سیاست نے ہمیں آزاد وطن دلایا۔ قائداعظم مسلمانوں کے بنیادی مسائل کا ادراک رکھتے تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے دلّی میں منعقدہ تیسویں اجلاس میں انہوں نے کہا تھا: ’’مسلمان گروہوں اور فرقوں کی نہیں بلکہ اسلام اور قوم کی محبت پیدا کریں کیونکہ ان برائیوں نے مسلمانوں کو دو سو برس سے کمزور کر رکھا ہے‘‘۔
دوراندیش، باکردار، ہمہ صفات قائداعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو 71 برس کی عمر میں ہوا تو پاکستان ہی نہیں، دُنیا بھر کے مسلمان غم سے نڈھال تھے۔ اُن کی رحلت خصوصیت سے نوزائیدہ مملکت پاکستان کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ اُن کی شخصیت اور کردار نے پاکستانی عوام کو یکجا کر رکھا تھا۔ قوم اُن کی وجہ سے متحد ومرتکز رہی۔ اس میں آگے بڑھنے اور پاکستان کو کامیاب بنانے کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔ طالع آزمائوں اور مفادپرستوں کی راہ میں وہ بڑی رکاوٹ تھے۔ اُن کے انتقال کے ساتھ ہی جیسے ایک شجرسایہ دار ہمارے سروں سے ہٹ گیا اور ہم دُھوپ کی شدت میں آگئے۔
اُن کی وفات کے بعد ہمارے اندرونی و بیرونی مسائل نے شدت سے سر اُٹھایا۔ چند ہی روز بعد بھارت نے حیدرآباد دکن پر قبضہ کر لیا اور اندرونی سطح پر پاکستان میں واضح طور سے قیادت کا بحران نظر آنے لگا، جو رفتہ رفتہ بڑھتا چلا گیا۔ ایک دھان پان سی مہذب وشائستہ شخصیت نے صاف ستھری سیاست کر کے انگریزوں اور کانگریسیوں جیسے سخت اور طاقتور مخالفین کے عزائم ناکام بنا کر 14 اگست 1947ء کو آزاد مملکت پاکستان کی بنیاد رکھ دی لیکن ہم اُن کے تدبر اور سیاسی بصیرت کے ورثے کو آگے نہ بڑھا سکے۔ اور اسی پر آج ہم قائد اعظم کے پاکستان میں شرمندہ ہیں۔ کیوں کہ آج کا پاکستان قائد کے پاکستان کی خواہشوں کے مطابق نہیں ہے۔ افسوس کہ آج قائد کے پاکستان میں ہر طرف اندھیرا ہے کہیں اُمید کی کرن نظر نہیں آرہی۔
کیا قائد کا پاکستان ایسا ہے جس میں ہر طرف احتجاج ہو رہا ہے، جس میں جمہوریت کے علمبردار ہر طرف احتجاج کی سیاست کر رہے ہیں۔ ملک میں دھرنے ہو رہے ہیں کسی کو پرواہ نہیں ہے، ملک میں احتجاج ہو رہے ہیں کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ پیمرا کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے چینلز کو پابند کرے کہ وہ نوجوان نسل کے ذہن میں قائد اعظم کے افکار کو اُجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اور پیمرا لائسنس میں اس بات کی پابندی ہونی چاہئے کہ کم از کم 24 گھنٹے میں 5 فیصد نشریات قائداعظم ، علامہ اقبال اور ان جیسے عظیم رہنمائوں کی مدح سرائی میں اور قومی افکار کے حوالے سے اُن کی سوچ کو نوجوانوں میں سرائیت کیا جائے تا کہ ہماری آنے والی نسلیں قومی جذبے سے سرشار ہو کر آگے بڑھیں۔
اور اب جبکہ 2018ء کا آغاز ہو رہا ہے، تو قائد اعظم کے پاکستان میں ہر شخص احتجاج کر رہا ہو گا اور قائد کی روح شرمندہ ہو رہی ہو گی ۔ ان حالات کی حکمران ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں ہے۔ ہماری جمہوریت ہے کہ ’’میں نہ مانوں‘‘ کے فارمولے پر چل رہی ہے،ایک سابق نااہل وزیر اعظم ملک کے اداروں کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ ملک شخصیات سے نہیں اداروں کے مضبوط ہونے سے چلا کرتے ہیں۔ بلکہ قائداعظم بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک کے ادارے مضبوط ہیں تو ملک کو طاقتور ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خیر ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ اس ملک پر رحم کرے (آمین)
0 Comments