All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

اہم عدالتی فیصلے اور سیاسی نتائج

عدل و انصاف کو ایک آفاقی حقیقت کا درجہ حاصل ہے۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم، عدل و انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ عہد ِحاضر میں سماج میں عدل و انصاف کا قیام عدلیہ کا فریضہ ہے۔ جس کے حالیہ فیصلوں کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عدلیہ نے جانبداری سےکام لیا، اگر کوئی ایسا طرز ِ عمل اختیار کرتا ہے تو اس کاعمل توہین عدالت کی ذیل میں تو آتا ہی ہے اس سے عوام کا عدلیہ ایسے معتبر ادارے پر اعتماد بھی متزلزل ہونے کا احتمال رد نہیں کیا جا سکتا۔ وطن عزیز کی سیاست میں پچھلے چند برس سے عدلیہ کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ہے کہ اسے بیشتر ایسے معاملات فیصل کرنا پڑے جن کا تعلق سیاستدانوں سے تھا۔

پاناما کیس کے 28 جولائی کے فیصلے، جس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا، سے دو روز قبل مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے لئے سپریم کورٹ میں درخواستیں جمع کرائیں کہ دونوں رہنمائوں نے انتخابات لڑنے کے لئے جمع کرائے گئے کاغذات میں سچائی سے کام نہیں لیا اور اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات ظاہر نہیں کیں، لہٰذا آئین کی شق 62 کے تحت دونوں کو نااہل قرار دیا جائے۔ اس پر 405 روز کے دوران 50 سماعتوں میں 101 گھنٹے عدالتی کارروائی ہوئی، کم و بیش 7 ہزار دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد عدالت ِ عظمیٰ نے 14 نومبر 2017 کو فیصلہ محفوظ کر لیا۔

گزشتہ روز عدالت ِ عظمیٰ نے دو ایسے فیصلے سنائے جنہیں ملک اور ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ عمران خان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ آنے سے قبل عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف دائر حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو دوبارہ کھولنے سے متعلق اپیل کو مسترد کر دیا، بعد ازاں سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نیب کی اپیل کومسترد کرنے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا وجوہات تحریری فیصلے میں بتائی جائیں گی۔ حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ ایک ایسا مقدمہ تھا جس پر شریف خاندان کےمخالفین سب سے زیادہ انحصار کر رہے تھے اور اسے شریف خاندان کی سیاست کے خاتمے کا باعث بننے والا مقدمہ قرار دے رہے تھے۔ 

تاہم یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عدالتی فیصلے کسی کی منشا یا جذبات پر فیصل نہیں ہوتے ۔ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کو حالیہ سیاست میں اس لئے خاص اہمیت حاصل ہو گی کہ اب مسلم لیگ ن کے مخالفین کے پاس وہ کاری ہتھیار نہیں رہے گا جسے وہ شریف برادران کی سیاست کے خاتمے کے حوالے سے سب سے ’’اہم‘‘ گردان رہے تھے۔ دوسرا اہم فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیا اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حنیف عباسی کی درخواست مسترد کر کے عمران خان کو اہل قرار دے دیا جبکہ جہانگیر ترین کے خلاف درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔ 

چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تحریک ِ انصاف پر غیرملکی فنڈنگ پر درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں۔ الیکشن کمیشن غیر جانبدارانہ طور پر پی ٹی آئی کے اکائونٹس کی پچھلے 5 سال تک کی چھان بین کر سکتا ہے۔ جہانگیر ترین کے بارے میں عدلیہ کا کہنا تھا کہ انہیں ایماندار قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ایک ہی دن عدالت ِ عظمیٰ کے دو مختلف مگر اہم ترین فیصلے اس امر کے غماز ہیں کہ ہماری عدلیہ آزاد ہے اور آزادانہ فیصلے کر رہی ہے اور جب عدلیہ آزاد ہو تو ملک و قوم کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہو سکتا۔ لازم یہ ہے کہ مذکورہ مقدمات کے تمام تر متعلقین عدلیہ کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کریں۔ کسی کو اگر ان فیصلوں پر تحفظات بھی ہیں تو اسے صرف وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جو اسے آئین نے سجھائی ہے۔ دوسرا کوئی راستہ خود کو آزمائش میں ڈالنے کے مترادف ہو گا۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

Post a Comment

0 Comments