All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

مولانا بھاشانی : سامراج مخالف اور کسانوں کے رہنما

مولانا عبدالحمید بھاشانی ایک مقبول مذہبی عالم اور سیاسی رہنما تھے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے تھا۔ وہ بے غرض تھے اور مظلوموں کے ہمدرد تھے۔ وہ ایک طویل عرصے تک برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔ مولانا بھاشانی 1880ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شرافت علی خان تھا۔ 1907 اور 1909 کے درمیان انہوں نے مکتبہ دیوبند سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ محمودالحسن (شیخ الہند) اور دوسرے ترقی پسند مسلمان مفکروں سے وہ بڑے متاثر ہوئے اور انہی کی وجہ سے وہ برطانوی استعمار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1909 میں انہوں نے ایک پرائمری سکول میں پڑھانا شروع کیا۔ 1917 میں مولانا بھاشانی عملی سیاست میں آئے اور نیشنلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی جس کی قیادت چنرن دان داس کر رہے تھے۔ 1919ء میں وہ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہو گئے۔ 1920ء میں وہ گرفتار کر لیے گئے اور انہیں سزا بھی دی گئی۔

رہا ہونے کے بعد انہوں نے تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ 1921ء میں انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف تحریک عدم تعاون میں حصہ لیا۔ اس وقت بھی انہیں اپنے ساتھیوں سمیت پابند سلاسل کر دیا گیا۔ 1930ء میں وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1937ء میں وہ آسام کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ 1946 تک کام کرتے رہے۔ اپریل 1944ء میں وہ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور پھر انہوں نے اپنے آپ کو تحریک پاکستان کیلئے وقف کر دیا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد مولانا بھاشانی نے اپنے پروگرام کو عملی شکل دینے کی منصوبہ بندی کر لی۔ 23 جون 1949ء کو انہوں نے مشرقی پاکستان عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ بھاشانی کو اس کا صدر اور شمس الحق کو سیکرٹری منتخب کر لیا گیا۔ 24 جولائی 1949ء کو انہوں نے عوامی مسلم لیگ کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کر لیا جس میں یار محمد خان نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔

اس طرح ڈھاکہ شہر میں پارٹی قائم ہو گئی۔ 31 جنوری 1952ء کو انہوں نے ’’آل پارٹی لینگوئج موومنٹ کمیٹی‘‘ بنائی۔ انہوں نے پاکستان میں بنگالی کو قومی زبان تسلیم کروانے کیلئے مہم شروع کی۔ 4 دسمبر 1953 کو انہوں نے قومی جمہوری محاذ (NDF) بنایا۔ انہوں نے عوامی مسلم لیگ کا نام بدل کر عوامی لیگ رکھ دیا۔ مئی 1954ء کو وہ سٹاک ہوم گئے۔ ان کے جانے کے بعد سکندر مرزا کی حکومت نے ان پر مشرقی پاکستان واپس آنے پر پابندی لگا دی اور انہیں کمیونسٹ قرار دیا۔ 1956ء کو مولانا بھاشانی نے قحط زدہ لوگوں کی خوراک کیلئے بھوک ہڑتال کی۔ 1957ء کو بھاشانی نے ’’آل پاکستان جمہوری کارکنان‘‘ کی کانفرنس منعقد کی۔ 25 جولائی کو انہوں نے مشرقی پاکستان قومی عوامی جماعت (NAP) بنانے کا اعلان کیا۔ وہ خود نیپ کے صدر بن گئے اور محمود الحق عثمانی اس کے سیکرٹری منتخب ہو گئے۔

مولانا بھاشانی کا ایک بڑا کام یہ تھا کہ انہوں نے اعظم خان کی بجائے محترمہ فاطمہ جناح کو 1965ء کے صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بنانے کیلئے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب الیکشن کا وقت آیا تو بھاشانی نے سرگرم کردار ادا نہیں کیا۔ بظاہر یہ لگتا تھا کہ انہوں نے صدر ایوب کی چین نواز پالیسیوں کی وجہ سے ان کی حمایت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بہرحال ان کے کیرئیر پر یہ ایک سوالیہ نشان تھا؟ انہوں نے 1968ء میں مشرقی پاکستان کے کاشتکاروں کیلئے کوآپریٹوز کو منظم کیا۔ اس سال انہیں ایوب حکومت نے گرفتار کر لیا۔ 1967 میں مولانا بھاشانی نے رابندر ناتھ ٹیگور پر حکومتی پابندی کے خلاف احتجاج کیا۔ 1969ء میں انہوں نے اگرتلہ سازش کیس واپس لینے کے لئے تحریک شروع کی۔

انہوں نے شیخ مجیب الرحمان اور دوسرے ملزموں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہیں سے ایوب خان کے زوال کا آغاز ہوا۔ بھاشانی نے 1970ء میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں عالمی کسان کانفرنس منظم کی۔ اس کانفرنس میں انہوں نے حکومت پاکستان سے کہا کہ ایک ریفرنڈم کرایا جائے جس میں لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیا انہیں اسلامی سوشلزم چاہئے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر فوجی حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو گوریلا جنگ ہو سکتی ہے۔ 1952ء کی ’’زبان تحریک‘‘ کے دوران مسلم لیگ کی حکومت خاصی حد تک اپنی مقبولیت کھو چکی تھی۔ 1954ء میں جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ کو انتخابات میں شکست دے دی اور اس کے رہنما نورالامین بھی ہار گئے۔

اس کے بعد مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ نے حکومت قائم کر لی۔ تاہم اس حکومت کو بعد میں برطرف کر دیا گیا۔ مولانا بھاشانی کا کیرئیر مختلف تنازعات کا شکار رہا اور ان سے اختلاف کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ بہرحال ان کی سیاسی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے تنازعات کے باوجود اپنا تشخص برقرار رکھا۔ انہوں نے 17 نومبر 1976ء کو ڈھاکہ میں وفات پائی اور انہیں تان گیل میں دفن کر دیا گیا۔

عبدالحفیظ ظفرؔ


 

Post a Comment

0 Comments