All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

طلبا تعلیم سے دور کیوں ہیں ؟

ایک اچھے نظام تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف طالب علم کو خواندہ بناتا ہے بلکہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بھی بناتا ہے، اس کے علاوہ طالب علم کی کردار سازی کے ساتھ طالب علم کی نظریاتی، فکری اور تہذیبی تربیت بھی کی جاتی ہے تاکہ اس کی روشنی میں وہ اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا تجزیہ کر کے اپنی صحیح رائے قائم کر سکے اور اس کی مدد سے مستقبل کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کر کے ان سے عہدہ برآ بھی ہو سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا نظام تعلیم ان تمام خوبیوں کا حامل ہے یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم، ذریعہ تعلیم، طریقہ تعلیم اور صلاحیت جانچنے کا طریقہ یعنی نظام امتحانات الغرض پورا نظام تعلیم ہی ناقص ہے۔

ایک عام مشاہدہ ہے کہ جس معاشرے میں تعلیم کا ذریعہ وہ زبان ہو گی جسے فرد گھر کے اندر یا گھر کے باہر بولتا ہے اور اسے استعمال کرتا ہے اس معاشرے میں تعلیم اور معیار تعلیم دونوں بلند ہوں گے، اسی صورت میں علم رٹ کر نہیں بلکہ سمجھ کر طالب علم ذہن نشیں کرے گا۔ اس طرح طالب علم میں فہم زیادہ ہو گا یہی وہ روشنی ہے جو تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے ایک اجنبی زبان انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے نام پر اپنے طالب علم پر مسلط کر دیا ہے جو طالب علم کے ذہن میں اترنے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا طالب علم تعلیم کے میدان میں نہ صرف تخلیقی صلاحیت سے محروم ہے بلکہ علم کا حصول اور اس کی جستجو کا جذبہ بھی ختم ہو گیا ہے، اس کی ساری صلاحیت اور قوت ایک اجنبی زبان کی گتھیاں سلجھانے پر صرف ہو رہی ہے۔

جہاں تک اردو ذریعہ تعلیم کا تعلق ہے ہم نے اصطلاحات کے نام پر اس ذریعہ تعلیم کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ آپ کسی سائنسی اور فنی کتاب جسے اردو زبان میں ڈھالا گیا ہو اس کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں یہ کتاب آپ کے ذہن میں اترنا تو بہت دور کی بات ہے آپ کے فہم سے ہی بالاتر ہو گی۔ اس طرح کی عملی کوشش نے طالبعلم کے لیے تعلیم کے عمل کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ اب آئیے نصاب تعلیم کی طرف ہمارا نصاب تعلیم ہماری عملی اور پیشہ ورانہ زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات محنت اور لگن سے پڑھنے والے طالبعلم بھی اپنی عملی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک طالب علم سیاست کے مضمون میں ایم اے کرنا چاہتا ہے، اسے بی اے کے مضامین میں علم سیاست کے ساتھ معاشرت، ایڈمنسٹریشن اور تعلقات عامہ جیسے مضامین جو علم سیاست کے مضمون سے ہم آہنگ ہیں اس کے نصاب کا حصہ ہونے چاہئیں، لیکن یہ طالب علم ’’علم کتب خانہ‘‘ کا مضمون جس کا علم سیاست کے مضمون سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے صرف اس وجہ سے پڑھنے پر مجبور ہے کہ اس کے کالج میں اس مضمون کے استاد ہی میسر ہیں۔

سوچیے ایسی صورت میں طالب علم اس مضمون سے دلچسپی کس طرح برقرار رکھ سکتا ہے یہ وہ عوامل ہیں جن کے باعث ہمارا طالبعلم تعلیم سے بیزار اور عدم دلچسپی کا شکار نظر آتا ہے۔ اس کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض امتحان پاس کرنا اور ڈگری کے حصول کا ذریعہ بن گیا ہے نتیجے میں وہ پورا سال پڑھنے کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت کلاس روم سے باہر غیر تعلیمی سرگرمیوں میں گزارتا ہے جیسے ہی امتحان کے انعقاد میں چند ہفتے رہ جاتے ہیں تو وہ امتحانی ٹوٹکے کی تیاری میں مصروف ہو جاتا ہے۔

یہ امتحانی ٹوٹکے کی صورت میں مختصر اور آسان انداز میں ماڈل ٹیسٹ پیپر، خلاصہ جات، گیس پیپر، حل شدہ پرچہ جات اس کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں جب منتخب مواد مربوط انداز میں مرتب کیا ہوا اس کو حاصل ہو جاتا ہے تو نتیجے میں علمی جستجو کا جذبہ طالب علم میں ختم ہو جاتا ہے وہ اپنی کامیابی کا انحصار ان امتحانی ٹوٹکوں پر کرتا ہے۔ کیونکہ وہ طالب علم سارا سال تعلیم سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے نتیجے میں یہ امتحانی ٹوٹکے اسے سمجھنے اور یاد کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ امتحانات کے آخری ایام میں رٹے کا سہارا لیتا ہے۔ اس میں بھی وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ صرف ان سوالات کے جوابات کو رٹے کی مدد سے حافظے میں محفوظ کیا جائے جو عموماً ہر سال دہرائے جاتے ہیں (عمومی طور پر ان کی تعداد دو درجن سے بھی کم ہوتی ہے) اس کوشش کے نتیجے میں وہ پانچ سے چھ سوالات کے جوابات لکھ کر امتحان میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔

جن مضامین میں رٹے سے کام نہیں لیا جا سکتا وہ طالب علم نقل کا سہارا تلاش کرتا ہے امتحان میں نقل دراصل علمی بددیانتی ہے اس کے منفی اثرات پورے نظام تعلیم پر مرتب ہوتے ہیں نقل کے رحجان سے لائق اور باصلاحیت طلبا کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ نقل کے نتیجے میں نالائق اور تعلیم میں دلچسپی نہ رکھنے والے طلبا زیادہ نمبر لے جاتے ہیں ذہین اور پڑھنے والے طالب علم اس صورتحال کا منفی اثر لیتے ہیں اور وہ بھی محنت سے جی چرانے لگتے ہیں تعلیمی سرگرمیوں میں ان کا ذوق و شوق ختم ہو جاتا ہے اس سے ہمارا پورا تعلیمی نظام متاثر ہوتا ہے۔ یہ ہے طالب علم کا کردار۔ اب آئیے تعلیمی نظام میں اساتذہ کے کردارکا بھی جائزہ لیتے ہیں کیونکہ تعلیمی نظام میں استاد کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 

بد قسمتی سے ہمارے بیشتر اساتذہ کرام بھی امتحانی نکتہ نظر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی تعلیمی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ طلبا کو اتنی ہی معلومات فراہم کی جائیں جتنی طالب علم کے لیے امتحان میں کامیابی کے لیے ضروری ہے اس بنیاد پر اساتذہ پورے نصاب کی تکمیل کے بجائے نصاب کے اہم حصوں پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ان کی توانائی اور قوت اپنی ترقیوں کے حصول اور دوسروں کی ٹانگ کھینچنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ بعض اساتذہ تعلیمی میدان میں اپنے نجی تعلیمی ادارے یعنی ٹیوشن سینٹرز جنھیں روپیہ پیسہ بنانے کے تعلیمی کارخانوں کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا اس کے قیام اور فروغ میں کوشاں اور فکرمند نظر آتے ہیں۔ اساتذہ کے اس عمل کی وجہ سے تعلیم کو جو کبھی ایک مشن اور نصب العین ہوتی تھی اب ایک تجارت بن کر رہ گئی ہے۔

بعض اساتذہ طلبا کو پڑھانے کی اہلیت اور صلاحیت دونوں سے محروم ہوتے ہیں وہ اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے طالب علموں کے ساتھ دوستیاں قائم کر کے ان کے مشاغل میں شریک ہوکر وقت کو گزارنے یا کسی حد تک کلاس میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ طلبا شعور کی اس منزل پر نہیں ہوتے کہ وہ اس بات کا ادراک کر سکیں کہ انھیں الو بنا کر دراصل اپنا الو سیدھا کر رہا ہے نتیجے میں طلبا کا تعلیمی نقصان ہوتا ہے اور استاد بھی اپنی حرمت اور احترام کھو دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے ان اسباب کو ختم کرنا ہو گا جس کی وجہ سے ہمارے نظام تعلیم میں خرابیوں نے جنم لیا ہے ایسی صورت میں ہی ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ورنہ ہم اس جاری نظام کے تحت اچھی یادداشت رکھنے والے طوطے پیدا کرتے رہیں گے اور اس میں اضافے کی تعداد کو کوئی نہیں روک سکے گا اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

جبار قریشی
 

Post a Comment

0 Comments