All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

یورپ کا سفر کسے کیسے کھا گیا ؟ دلدوز داستانیں شائع

آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے
والا مزید ایک پاکستانی راستے میں ہی ہلاک ہو گیا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران نوشہرہ ورکاں کے ایک ہی دیہات کا ہلاک ہونے والا یہ چھٹا نوجوان ہے۔
غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والا پچیس سالہ مشتاق احمد ڈیڑھ ماہ پہلے اپنے گھر سے نکلا تھا۔ مشتاق کے والدین کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان کا بیٹا اس وقت ہلاک ہوا، جب وہ ایک گاڑی پر سوار ایران کی سرحد عبور کرنے کی کوشش میں تھا۔ بتایا گیا ہے کہ سرحد پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا اور وہ حادثے کا شکار ہو گئی۔
مشتاق احمد کی میت گزشتہ روز ان کے گاؤں متہ ورکاں لائی گئی۔ متہ ورکاں میں حالیہ چند ماہ کے دوران یورپ جانے کی خواہش میں ہلاک ہونے والا یہ چھٹا نوجوان ہے۔ چند ماہ پہلے اسی گاؤں کے پانچ نوجوان ترکی سے غیرقانونی طور پر یونان جاتے ہلاک ہو گئے تھے۔

ہلاک ہونے والے مشتاق احمد کے سات بہن بھائی ہیں جبکہ ان کے والد پہلے ہی وفات پا چکے ہیں۔ آخر اس گاؤں کے نوجوان کیوں غیر قانونی طریقے سے یورپ جانا چاہتے ہیں؟ اس حوالے سے نوشہرہ ورکاں کے مقامی صحافی میاں عمران بشیر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ آج سے پچیس تیس سال پہلے جو لوگ یورپ گئے، ان میں سے زیادہ تر یورپ کے اچھے معاشی حالات کی وجہ سے وہاں سیٹل ہو گئے تھے۔ اب ان لوگوں کی اور مقامی لوگوں کی مالی یا معاشی ترقی کی رفتار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج کے نوجوان اپنے اردگرد کے ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور ان جیسی پرآسائش زندگی کی تلاش میں یورپ جانا چاہتے ہیں۔ 

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے
غیر قانونی طریقے سے یورپ جانا انتہائی پرخطر ہے لیکن دیہاتوں کے نوجوان اس کے باوجود ایسا کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ آخر نوجوان اس طرح غیر قانونی طریقے سے ہی یورپ کیوں جا رہے ہیں؟ اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے عمران بشیر نے بتایا، ’’ہمارے ہاں خاندان بڑے اور ذرائع آمدن کم ہیں۔ یورپ جانے کا سب سے سستا طریقہ ’ڈنکی‘ ہی ہے، جس میں تین لاکھ روپے میں بندہ یونان تک پہنچ جاتا ہے۔ غربت، تعلیم میں کمی اور معاشی مسائل کی وجہ سے نوجوان قانونی طریقے سے یورپ جانا افورڈ نہیں کر سکتے اور وہ ’ڈنکی‘ کا طریقہ ہی اپناتے ہیں۔ بیس سے تیس سال کی عمر تک کے نوجوان فطری طور پر ناسمجھدار، ایڈونچر پسند اور ڈر یا خوف سے عاری مزاج کے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایجنٹوں کے دکھائے گئے مستقبل کے سہانے سپنے، ڈنکی کے دوران ایجنٹوں کی طرف سے آرام دہ اور مشکلات سے پاک سفر کی جھوٹی منظر نگاری، اس کے اہم اسباب ہیں۔‘‘

ایک ہی گاؤں میں چھ نوجوانوں کی ہلاکتوں کے باوجود اس گاؤں کے درجنوں نوجوان مستقبل میں بھی غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مقامی افراد ان تلخ تجربات سے کیوں کچھ سبق حاصل نہیں کر رہے اور سادہ لوح انسان کس طرح ایجنٹوں کی نرغے میں آ جاتے ہیں؟ عمران بشیر اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں، ’’نئے ایجنٹ ماضی میں نوجوانوں کی ہلاکتوں کو نا تجربہ کار ایجنٹوں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بڑا ایجنٹ ظاہر کرتے ہیں، نوجوانوں کو ہر قسم کی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور سادہ لوح دیہاتی ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔‘‘

گوجرانوالہ ڈویژن کے تقریبا ہر شہر اور تحصیل میں ایجنٹ اور ان کے سب ایجنٹ نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپ تک پہنچانے ( ڈنکی لگوانے) کا کاروبار کر رہے ہیں۔ نوشہر ورکاں کے مقامی صحافی الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کاروبار میں ایف آئی اے کے اہلکار بھی ملوث ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اتنی زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہونے کے باوجود بھی اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
عمران بشیر کا انکشاف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نوشہرہ ورکاں ہی کے کئی دیہاتوں کے لوگوں نے ایران اور ترکی میں اپنے سیف ہاؤسز بنا رکھے ہیں اور اسی کام کے ذریعے وہ لاکھوں، کروڑوں روپے کما رہے ہیں، ’’سب ایجنٹ یہاں سے بندے تیار کر کے انہیں ایران تک پہنچاتے ہیں، اس کے بعد ایران میں بیٹھے انسانی اسمگلر ان نوجوانوں کو ترکی میں بیٹھے ایجنٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ یونان تک چلتا ہے۔ ہر انسانی اسمگلر اپنے حصے کی رقم وصول کرکے نوجوانوں کو اگلے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کر دیتا ہے۔‘‘

بشکریہ DW اردو


 

Post a Comment

0 Comments