محبت کی نشانی اور عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام تاج محل کو ایک سیاسی تنازعے میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ پہلے اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ تاج محل بھارتی تہذیب و ثقافت کی عکاسی نہیں کرتا۔ پھر ریاستی حکومت نے اسے اپنے سیاحتی کتابچے سے خارج کر دیا اور اب اتر پردیش سے بی جے پی کے متنازعہ رکن اسمبلی نے کہا کہ ”تاج محل کی تعمیر غداروں نے کی تھی اور وہ بھارتی ثقافت پر ایک بدنما داغ ہے“۔ انھوں نے میرٹھ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”سیاحتی کتابچے کے تاریخی مقامات کی فہرست سے تاج محل کو خارج کرنے پر بہت سے لوگوں کو حیرت ہے۔ وہ کس تاریخ کی بات کر رہے ہیں۔ تاج محل کی تعمیر کرنے والے شخص نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا تھا۔ وہ ہندووں کا قتل عام کرنا چاہتا تھا۔ اگر یہ تاریخ ہے تو افسوسناک ہے اور ہم اسے تبدیل کر دیں گے“۔
سنگیت سوم کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے سوم کے بیان پر سخت اعتراض کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے زیر انتطام کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبد اللہ نے ٹویٹر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اب پندرہ اگست کو لال قلعہ سے کوئی تقریر نہیں ہو گی۔ اب وزیر اعظم نہرو اسٹیڈیم سے تقریر کریں گے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سوال کیا کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی اب غداروں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارت سے ترنگا نہیں لہرائیں گے۔ دہلی کا حیدرآباد ہاوس بھی غداروں کا تعمیر کردہ ہے کیا وزیر اعظم اب وہاں غیر ملکی شخصیات کا استقبال نہیں کریں گے۔
انھوں نے سوم کو چیلنج کیا کہ وہ یونسکو سے کہیں کہ وہ تاج محل کو اپنے عالمی ورثے کی فہرست سے خارج کر دے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لوگوں کے بیانات کی جھڑی لگ گئی ہے۔ دس ہزار سے زائد افراد نے اپنا رد عمل ظاہر کیا اور بیشتر نے مذکورہ بیان کی مذمت کی اور اسے نفرت انگیز قرار دیا۔ متعدد فلمی شخصیات نے بھی بیان کی مذمت کی۔ ٹویٹر پر ہیش ٹیگ تاج محل تاج محل سب سے زیادہ ٹرینڈ کرتا رہا۔ تاہم بی جے پی کے بعض لیڈروں نے بیان کی حمایت بھی کی.