گزشتہ 16برسوں سے امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جنگ لڑتے چلے جانا پاکستان کیلئے تباہی اور خسارے کا سودا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے 22؍ اگست 2017 کے پاکستان دشمن پالیسی بیان کے بعد جو نیو گریٹ گیم کے تحت ناپاک امریکی عزائم کا آئینہ دار ہے، پاکستان نے جو ردّعمل ظاہر کیا ہے اس سے ریکارڈ تو درست ہو سکتا ہے، قوم کا مورال بھی کسی حد تک بلند ہو سکتا ہے مگر امریکہ کے مقاصد اور حکمت عملی میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اس بات کے شواہد نظر آ رہے ہیں کہ دہشت گردی کی جنگ میں تعاون برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کی سول و ملٹری لیڈرشپ پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمنٹ نے جو مطالبات امریکہ سے کئے ہیں وہ بھی عملاً تسلیم نہیں کئے جائیں گے۔ امریکی سوچ یہ نظر آتی ہے کہ ماضی کی طرح بیرونی امداد اور بیرونی قرضوں کے حصول کیلئے پاکستان جلد ہی گھٹنے ٹیک دے گا۔ 25؍ نومبر 2009 کے امریکہ، بھارت مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے تباہ کرنے کیلئے عملی تعاون کریں گے۔ پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کمیٹی نے اس خطرے سے بچنے کیلئے امریکہ سے کوئی مطالبہ کیا ہی نہیں۔
پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 22؍اکتوبر 2008 اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد 14؍ مئی 2011 کو متعدد قراردادیں منظور کی گئی تھیں اور 20؍ ستمبر 2011 کو کل جماعتی کانفرنس نے بھی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا مگر ڈالر کے حصول اور اقتدار کو طول دینے کیلئے امریکہ سے ان مطالبات کو منوانے کی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی۔ چند حقائق پیش ہیں:
اکتوبر 2008 میں پاکستان کے سیکرٹری دفاع نے کہا کہ اگر امریکہ اقتصادی پابندیاں لگا دے تو پاکستان گھٹنے ٹیک دے گا۔
پاک افغان سرحد پر سلالہ میں وردی میں ملبوس ہماری فوج کے جوانوں کو نیٹو افواج نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ جس کو صرف سازش قرار دیا گیا تھا۔ یہ ایک قومی سانحہ ہے کہ بعد میں کہا گیا کہ ہمیں نیٹو کو سامان کی ترسیل کی فراہمی بحال کرنے کی جلدی ہے تا کہ پاکستان کو پیسے ملنا شروع ہوں اور ایسا ہی کیا گیا۔
سوات اور وزیرستان میں آپریشنز امریکی دبائو پر کئے گئے تھے۔ ان تمام آپریشنز سے پہلے پاک افغان سرحد پر باڑ نہ لگانا بڑی غلطی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی یہ سوچ درست نہیں ہے کہ دہشت گردی سے جنگ میں امریکہ خطّے میں اپنے مقاصد گزشتہ برسوں میں حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا امریکی حکمت عملی کا حصّہ ہے چنانچہ قومی سلامتی کمیٹی کے اس بیان سے اتفاق کرنا ممکن نہیں کہ امریکہ اب اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ اب سے 15-16 برس قبل ہم نے ان ہی کالموں میں کہا تھا:
امریکہ طویل مدّت تک افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے چنانچہ حکمت عملی یہ ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں مستقل طور پر رکھی جائیں (جنگ 30؍ اکتوبر 2001 اور 6؍ فروری 2002) آمر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ یہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔
امریکہ خطّے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے (جنگ 26؍فروری 2002)
اس جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے مجموعی نقصانات کا مجموعی حجم پاکستان کو مغرب سے ملنے والی امداد سے کہیں زیادہ ہو گا (جنگ 2؍ اکتوبر 2001)
امریکہ، پاکستان کے خلاف بہ وقت ضرورت استعمال کرنے کیلئے چارج شیٹ تیار کر رہا ہے (جنگ 25؍فروری 2003)
اب سے 15-16 برس قبل تحریر کئے گئے ہمارے یہ خدشات حرف بہ حرف درست ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے کہ امریکہ طالبان کو کمزور ضرور کرنا چاہتا ہے مگر ان کی طاقت پوری طرح ختم نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس صورت میں افغانستان کے سابق اور موجودہ حکمراں ہی امریکہ کو شکریہ کے ساتھ ملک سے رخصت کرنے کی بات کریں گے۔ ہم ان ہی کالموں میں برس ہا برس سے کہتے رہے ہیں کہ امریکہ اس جنگ کو جیتنے کے بجائے اس جنگ کو طول دینا چاہتا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے تسلیم کیا تھا کہ نائن الیون کے چند ماہ بعد امریکی افواج نے تورا بورا کی پہاڑیوں میں اسامہ بن لادن کو گھیر لیا تھا لیکن انہوں نے اسامہ کو بچ نکلنے اور پاکستان میں داخل ہونے کا موقع دیا اور یہ کہ القاعدہ کے دہشت گردوں کے افغانستان سے بچ نکلنے اور پاکستان میں داخل ہونے کا موقع دینے کی ذمہ داری امریکہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی کہتا ہے کہ امریکہ ڈرون حملے کر کے پاکستان میں انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے اور یہ کہ امریکہ نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے۔
امریکی جنرل نکولس کا یہ حالیہ بیان بھی خطرے کی گھنٹی ہے کہ پشاور اور کوئٹہ میں طالبان شوریٰ موجود ہے۔ اس پس منظر میں قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمنٹ کو بھی اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ اگر امریکہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں اور برآمدات کے ضمن میں یورپی یونین کو منفی پیغامات بھیجے اور صرف چار ممالک (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور برطانیہ) سے پاکستان آنے والی تقریباً 14؍ارب ڈالر سالانہ کی ترسیلات میں کمی کرانے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تو تمام تر مادّی وسائل ہونے کے باوجود موجودہ معاشی پالیسیوں کے تناظر میں کیا پاکستان ان جھٹکوں کا مقابلہ کر سکے گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ چار برسوں میں پاکستان نے 97؍ ارب ڈالر کے تاریخی حجم کے تجارتی خسارے کا سامنا کیا ہے۔ ان ہی چار برسوں میں 74؍ارب ڈالر کی ترسیلات سے اس خسارے کو کم کیا گیا ہے۔ ان ترسیلات کا تقریباً 75 فی صد ان ہی چار ممالک سے آیا ہے۔ اس زبردست خطرے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو ادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے اور اقتصادی دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے فوری طور پر قانون سازی کرنے کے ساتھ کچھ انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ایران سے تنائو کی کیفیت ختم کرنا ہو گی اور چین سے مشاورت کے ساتھ مالی معاونت طلب کرنا ہو گی۔
اقتصادی دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے وفاق اور صوبوں کو ایک مقررہ رقم سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد اور وصول کرنا ہو گا، معیشت کو دستاویزی بنانا ہو گا، جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے کیلئے صوبوں کو اقدامات اٹھانا ہوں گے، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4)کو منسوخ کرنا ہو گا، ملکی پاناماز پر ہاتھ ڈالنا ہو گا، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا ہو گا، اسمگلنگ پر قابو پانا ہو گا، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں تک رقوم کی فراہمی روکنا ہو گی اور بینکاری کے نظام کی اصلاح کرنا ہو گی۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے تجویز پیش کی ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کو بیرونی ملکوں سے واپس لانے کیلئے ٹیکس ایمنسٹی دی جائے۔ یہ بات حیران کن ہے کیونکہ اس قسم کی تجاویز دینا اسٹیٹ بینک کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ یہ تجویز مسترد کی جانی چاہئے۔
اگر مندرجہ بالا تجاویز کو نیشنل ایکشن پلان کا حصّہ نہ بنایا گیا تو امریکہ کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمنٹ کے مطالبات عملاً رد کئے جانے کے باوجود پاکستان دہشت گردی سے جنگ میں بدستور امریکہ کی معاونت کرتا رہے گا یعنی سب کچھ پہلے جیسا ہی ہوتا رہے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کی جنگ لڑنے اور پاکستان کی سالمیت و مفادات ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے۔
0 Comments