All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا وزیرِاعظم مودی کے ہندوتوا نظریے کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے؟

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے بی جے پی کو خبردار کیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام کا رویہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آر ایس ایس نے حال ہی میں ایک تین روزہ میٹنگ کا انعقاد کیا تھا جس میں پورے ملک سے سنگھ پریوار کی مختلف تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی تھی۔ پارٹی کے صدر امِت شاہ نے عوامی سطح پر کام کرنے والی ان تنظیموں کے نمائندوں کی رپورٹوں کا بہت گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس نے پارٹی صدر کو بتایا ہے کہ اقتصادی سست روی، ملازمتیں ختم ہونے، نئے مواقع سمٹنے، بڑے نوٹوں پر پابندی لگانے کا منفی نتیجہ نکلنے اور کسانوں میں بڑھتی ہوئی بےچینی سے عام آدمی کا رویہ حکومت کے بارے میں بدل رہا ہے۔

وہ لوگ جو حکومت کے حامی ہیں اب ان پہلوؤں پر حکومت کی کارکردگی کے بارے میں سوالات کرنے لگے ہیں۔ نوٹوں پر پابندی کے فیصلے کو اس طرح مشتہر کیا گیا تھا جیسے اس قدم سے لاکھوں اور کروڑوں روپے کے کالے دھن حکومت کی گرفت میں آ جائیں گے اور حکومت کے بہت سے حامی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس سے انھیں براہ راست فائدہ پہنچے گا مگر اب اس قدم کی ناکامی کے بعد انھیں لگ رہا ہے کہ حکومت نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔ مودی حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تین برس ہو چکے ہیں۔ ان تین برسوں میں ملک کی معیشت مسلسل نیچے گئی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت تین برس میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔

آنے والی سہ ماہی میں اس شرح کے بھی نیچے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ ملک کی برآمدات گھٹتی جا رہی ہیں۔ صنعتی پیداوار بڑھ نہیں رہی۔ حکومت نئی ملازمتیں نہیں پیدا کر سکی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبے مشکلات میں ہیں۔ زرعی شعبہ بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت نے بینکوں میں جمع کی جانے والی رقوم پر شرح سود میں زبردست کمی کر دی ہے لیکن بینک سے لیے جانے والے قرضوں کی شرح سود توقع کے برعکس گھٹ نہیں سکی۔ لاکھوں مکان تیار پڑے ہیں اور ان کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ ملک کی کئی بڑی تعمیراتی کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں۔

مودی حکومت نے ان گزرے ہوئے تین برسوں میں نعرے تو بہت دیے، لیکن عملی طور پر کسی بڑی تبدیلی کے لیے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا جسے عام آدمی محسوس کر پاتا۔ مودی اور ان کی جماعت نے گزرے ہوئے برسوں میں اپنی حریف جماعتوں کو کرپٹ، نا اہل اور ملک دشمن تک قرار دیا۔ انھوں نے خود کو عوام کے سامنے ایک ایسے مسیحا کے طورپر پیش کیا جو ملک کے تمام مسائل کو یک لخت حل کر دے گا۔ انھوں نے عوام کی توقعات اتنی بڑھا دیں کہ وہ ان سے سیاسی معجزے کی امیدیں کرنے لگی۔ آئندہ پارلمیانی انتخابات میں اب محض دو برس باقی ہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی امت شاہ آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں لگ چکے ہیں۔

انڈیا کی سیاست میں ہندوتوا اس وقت اپنے عروج پر ہے اور اس کی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے تین برسوں میں حکومت نے آر ایس ایس کے ہندوتوا کے نظریے پر عمل کیا۔ یہ نظریہ حکومت کا رہنما اصول بنتا جا رہا تھا۔ اسے ملک کے کئی حلقوں سے زبردست حمایت بھی مل رہی تھی۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ نفرت اور مذہبی تنگ نظری کی سیاست سے ملکوں کی تقدیریں تباہ ہو سکتی ہیں، سنور نہیں سکتیں ۔عوام کا بھرم رفتہ رفتہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ مودی سیاست کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے اپنے پیروں کے نیچے کی زمین کی حرکت محسوس کر لی ہے۔ حال میں ان کے رویے میں غیر معولی تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ انھوں نے پچھلے دنوں برما کے دورے میں رنگون میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مزار پر پھول چڑھائے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب وہ مغل بادشاہوں کو کو لٹیرے اور ظالم بتاتے تھے۔

جاپان کے وزیر اعظم جب احمدآباد آئے تو وہ انھیں 16 ويں صدی کی مسجد بھی دکھانے لے گئے۔ کشمیر میں جہاں ہر مسئلے کے حل کے لیے صرف طاقت کا استعمال ہو رہا تھا وہاں اب اچانک انسانیت اور مذاکرات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کابینہ میں نئے وزرا شامل کیے گئے ہیں اور کئی وزرا کے قلم دانوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بعد اب کسانوں نے بی جے پی کے اقتدار والی دوسری ریاست راجستھان میں بھی مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں آر ایس ایس سے وابستہ مزدور یونینیں اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی ہیں۔

صنعتی گھرانوں کی ملیکت والا انڈین میڈیا اب بھی اپوزیشن مخالف اور مودی کا حامی ہے لیکن طویل عرصے تک یہ روش وزیر اعظم کی اپنی مقبولیت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مودی کی مقبولیت اب بھی کافی حد تک برقرار ہے لیکن صرف مودی کی مقبولیت آئندہ پارلیمانی انتحاب جیتنے کی ضامن نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی انتہائی مقبولیت کے باوجود بی جے پی 2004 میں شکست فاش سے دو چار ہوئی تھی۔

شکیل اختر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی


 

Post a Comment

0 Comments