All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

چولستان : سرسبز خطہ جو صحرا میں بدل گیا

چولستان ہماری ثقافتی اور تہذیبی روایات کا عکاس ہونے کی بدولت نا صرف ملکی
بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث ہے۔ یہاں کی روایتی زندگی کا اپنا حسن ہے جس کا تذکرہ یہاں کی لوک کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔ صحرا کا حدود اربعہ اور رہن سہن حالات اور وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ کبھی یہاں پر پانی اور خوبصورتی بھی نظر آتی تھی۔ لیکن اب ہر طرف ریت کے ذرے بکھرے نظر آتے ہیں۔ چار ہزار سال قبل یہاں کبھی دریائے سرسوتی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا تھا۔ ریت اور صحرائی ماحول میں یہ دریا کبھی صحرا کی شان دکھائی دیتا تھا لیکن اس کا خشک ہو جانا صدیوں پرانی بات بن کر رہ گئی۔

اس کے علاوہ تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہاں دریاے ھاکڑہ کی لہریں بھی موجزن تھیں اور یہ سندھ اور ہند کے درمیان حد فاضل کا کام دیا کرتی تھیں یہ دریا جیسلمیر اور بیکانیر کی ریاستوں کو بھی جدا کرتا تھا اگرچہ اس دریا کا رخ تبدیل ہو گیا لیکن گم گشتہ تاریخ کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ چولستان کے صحرا نے ہر چیز کو ویرانی میں تبدیل کر دیا ہے یہاں کے لوگ ان تبدیلیوں سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اپنے طرز زندگی کو تبدیل کیا بلکہ جدوجہد کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ چولستان کو تھل روہی اور چولستان کہا جاتا ہے یہ مشہور ریگستان جس کا رقبہ سولہ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ بہاولپور سے تیس کلو میٹر دور ہے یہ صحرا آگے چل کر تھر کے ریگستان سے مل جاتا ہے۔
چولستان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف روائتیں ملتی ہیں کیونکہ یہ خطۂ زمین مغرب میں تھر اور جنوب مشرق راجپوتانے کے وسیع صحرا کے درمیان واقع ہے۔ کسی زمانے میں اسے چولن بھی کہا جاتا تھا۔ تندو تیز آندھیاں ریت کے متحرک ٹیلوں کو ایک جگہ سے اڑ ا کر دوسری جگہ لے جاتی تھیں۔ اکھاڑ پچھاڑ کے اس عمل کو چولن کہا جاتا ہے اور پھر یہ نام چولن سے چولستان بن گیا۔فروری اور جولائی کے درمیان لوگ پانی کی تلاش کے لیے ٹوبوں (جوہڑوں ) کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں سے قیمتی اشیاء، زیور اور منکے بھی دریافت ہوئے ہیں جنہیں دھاگے میں پروکر یہ لوگ اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں یہ زیور اور منکے چولستانی لوگوں کو بہت بھاتے ہیں۔ جو بیضوی اور تکونی شکل کے ہوتے ہیں۔ چولستانیوں کی زندگی بظاہر تھکا دینے والی ہے مگر وہ اس زندگی سے بیزار نہیں بلکہ اسے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ بادلوں کی آمد کو اچھا شکون مانتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہوا ان بادلوں کو اڑا کر نہ لے جائیں۔ آندھی اور ہوا سے قافلے راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ صحرائی بگولے بڑے خوف ناک ہوتے ہیں۔ قافلے والے ان پھیلے ہوئے خوفناک بگولوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ صحرائی آندھی کا منظر بڑا خوفناک ہوتا ہے یہ بگولے سرخی مائل اور بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔

چولستان میں جولائی سے ستمبر تک تین مہنیے بارش جاری رہتی ہے۔ وقت جیسے جیسے ان مہینوں سے دور چلا جاتا ہے صحرا کا چہرہ اسی تناسب سے اداس اور بے چین دکھائی دینے لگتا ہے بارش کے بعد خود رو پھول اور صحرائی جھاڑیاں توانا ہو کر ہر طرف پھیل جاتی ہیں۔ چولستان کی ایک اپنی ہی نرالی اور اچھوتی دنیا ہے۔ ایسی دنیا جو دل کی اجڑی ہوئی بستی کو آباد کر دیتی ہے اور روح کے سوتے ہوئے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے۔ چولستان میں چاندنی راتوں کے نظارے بہت دیدنی ہوتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے انسان کے چاروں طرف نور کا ایک جہان بکھرا ہو۔ غروب آفتاب کا منظر ایسے لگتا ہے جیسے صحرا آنکھیں بند کر رہا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال اس صحرا میں گزارے۔

شیخ نوید اسلم

Post a Comment

0 Comments