All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

وہ وقت جب امریکی وفد کو پاکستان نے آمد کیلئے این او سی بھی نہ دیا

28 مئی 1998ء ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کا دن، ایٹی قوت بننے کے لیے پاکستان کو کس حدتک امریکی دباؤ برداشت کرنا پڑا لیکن اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کس طرح اپنے عزم پر ڈٹے رہے اور ملک کو ایٹمی قوت بنایا، اس پر سینئر کالم نویس ’رؤوف طاہر‘ نے روزنامہ دنیا میں لکھے گئے ایک کالم میں روشنی ڈالی ہے ۔ اُنہوں نے لکھا کہ ’یہ وہ مرحلہ تھا جب قومی خودمختاری اور عزت و وقار کیلئے کوئی بھی قیمت مہنگی نہیں ہوتی۔ 

امریکن سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل زینی اپنی کتاب ''Battle Ready‘‘ میں تفصیل سے یہ دلچسپ کہانی بیان کر چکے کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کیلئے صدر کلنٹن کی ہدایت پر وزیر دفاع ولیم کوہن کی زیر قیادت ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد کا بوئنگ707 ٹمپا کے ہوائی اڈے پر تیار کھڑا تھا۔امریکیوں کے بار بار رابطوں کے باوجود اسلام آباد کی طرف سے این او سی نہیں مل رہا تھا۔ بالآخر جنرل جہانگیر کرامت سے امریکی جرنیلوں کے تعلقات کام آئے اور اپنے آرمی چیف کی درخواست پر وزیراعظم نواز شریف نے امریکی وفد کو آنے کی اجازت دے دی۔ جنرل زینی کے بقول امریکی وفد نے پاکستانی وزیراعظم سے متعدد ملاقاتیں کیں لیکن وہ وزیراعظم پاکستان سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی بات نہ منوا سکے۔ امریکیوں کی کوئی ترغیب ، کوئی تنبیہ ،پرعزم وزیراعظم کو ایٹمی دھماکوں سے باز نہ رکھ سکی۔

گیارہ مئی کو نواز شریف سربراہ اجلاس کے سلسلے میں قازقستان میں تھے۔بھارتی دھماکوں کی اطلاع آئی تو ایک رائے یہ تھی کہ وزیراعظم پاکستان کو فوراً وطن واپسی کی راہ لینی چاہیے لیکن وزیراعظم کو اس سے اتفاق نہ تھا۔ ان کا موقف تھا کہ اس سے ہندوستان اور باقی دنیا کو یہ تاثر جائے گا کہ ہندوستانی دھماکوں سے پاکستان دبائو میں آ گیا ہے ۔ وہ دنیا کو پاکستان کے مضبوط اعصاب کا تاثر دینا چاہتے تھے۔ وہ شیڈول کے مطابق 14 مئی کو واپس آ ئے۔ ایٹمی سائنسدانوں سے استفسار کیا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کیلئے کتنا وقت درکار ہو گا ؟ دس گیارہ دن سے زیادہ نہیں۔ 10 مئی کو Go Ahead مل گیا اور سائنسدانوں کی ٹیم چاغی روانہ ہو گئی۔

اس دوران نواز شریف دوست ممالک کی قیادت کے علاوہ اندرون ملک بھی صلاح مشورے میں مصروف رہے ۔ وہ اپنے طور پر قازقستان ہی میں یکسو تھے لیکن اسکے لیے مسلح افواج کی قیادت کے علاوہ اپنے سیاسی رفقا اور دیگر ارباب فہم و دانش سے مشاورت کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ انہیں ملک کے حال اور مستقبل کیلئے گہرے اثرات کے حامل فیصلے میں شرکت کا احساس دلانا ضروری تھا۔ سنگین ترین معاملہ عالمی اقتصادی پابندیوں کا تھا۔ اس حوالے سے سعودی عرب ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر یارِ وفا دار کے طور پر سامنے آیا۔ امریکہ سمیت ساری دنیا کے دبائو کی پروا کیے بغیر سعودی قیادت نے پاکستانی قیادت کو تیل (Deffered Payment) سپلائی جاری رکھنے کی یقین دہانی کردی تھی۔ یہ ''دیفرڈ پیمنٹ ‘‘بھی فائلوں کی حد تک تھی مگر یہ'' حساب دوستان دردل‘‘ والا معاملہ تھا‘۔
 

Post a Comment

0 Comments