All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کسی کو مارنے کے بعد یہ کہہ دینا آسان ہے کہ یہ سب دہشت گرد تھے

پاکستان میں حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق گزشتہ رات لاہور کے نزدیک پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے دس افراد کی ہلاکت ماورائے عدالت قتل ہے۔ ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے بی بی سی کی نامہ نگار نادیہ سلیمان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو مارنے کے بعد یہ کہہ دینا آسان ہے کہ 'یہ سب دہشت گرد تھے اس لیے مارے گئے ہیں۔ یہ سب ماورائے عدالت قتل ہیں۔' انھوں نے کہا اگر کسی پہ دہشت گردی کا الزام ہے اور پولیس ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو انھیں گرفتار کر کے قانون کے مطابق چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے۔
پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے ڈپارٹمنٹ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب لاہور کے نواحی علاقے مناواں میں پولیس مقابلے کے دوران کالعدم تنظیم کے 10 مبینہ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ پریس ریلیز میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے شدت پسندوں میں لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے دھماکے کا سہولت کار بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر مہدی حسن نے مزید کہا کہ عدالت سے یہ فیصلہ ملنا ضروری ہے کہ کوئی دہشت گرد ہے یا نھیں: 'پولیس کے کہنے پہ یقین نھیں کیا جا سکتا کہ جو لوگ مارے گئے ہیں وہ لوگ دہشت گرد ہیں۔' انھوں نے کہا کہ مرنے والوں کے بارے میں پولیس کا یہ موقف تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گرد تھے اس لیے مقابلے میں مارے گئے جب کہ مقابلے میں عام طور پر پولیس والوں کو کوئی نقصان نھیں ہوتا۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ کہتی ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہ ہمارا قانون دیتا ہے اور نہ ہمارا آئین۔ طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ نوّے کی دہائی میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا قیام، اس کے بعد پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ، پھر فوجی عدالتوں کا قیام اور حال ہی میں ان کی مدت میں توسیع، ان سب قوانین کی موجودگی میں ماورائے عدالت ہلاکتیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔

Post a Comment

0 Comments