All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پی ٹی وی کا عروج و زوال

کچھ عرصہ پہلے ایک چینل کے اینکر نے ایک کالم میں سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید سے ایک ملاقات کا ذکر کیا، جس میں ان کے بقول اُنہیں پی ٹی وی میں ڈائریکٹر نیوز کی پوسٹ کی پیشکش کی گئی تھی، جو انہوں نے ٹھکرا دی، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے ایک معنی خیز تبصرہ کیا کہ اگر وہ یہ پیشکش قبول کر لیتے تو آج پرائیویٹ سیکٹر میں صحافت کی دُنیا میں وہ مقام حاصل نہ کر پاتے جو اُنہیں اِس وقت حاصل ہے۔ ان کی یہ بات غور طلب ہے کہ کیا واقعی پی ٹی وی نیوز میں ٹیلنٹ کی کوئی گنجائش نہیں یا وہاں ایسی فضا قائم ہے جو ٹیلنٹ کی قاتل ہے پرائیویٹ چینلوں میں اس وقت اوروں کے علاوہ طلعت حسین، کاشف عباسی، قطرینہ حسین،عاصمہ شیرازی وغیرہ بڑے کامیاب اینکر سمجھے جا رہے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی وی سے اڑان بھری ہے اور ان بلندیوں پر پرواز کر رہے ہیں۔ ثابت ہو گیا کہ پی ٹی وی میں ان کا قیام ان کی پرواز میں کوتاہی کا باعث نہیں بنا۔ تاہم یہ سب لوگ پی ٹی وی میں وزیٹر تھے۔ مستقل ملازمین کے کردار کا جائزہ لیں تو اوپر ذکر کئے گئے اینکر کی بات میں کچھ صداقت نظر آتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی وی کے بڑے کامیاب لوگ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد نجی شعبے میں کہیں نظر نہیں آئے۔ اس میں شاید نجی چینلوں میں اچھی پوزیشن پر موجود ان لوگوں کا تعصب بھی کام کر رہا ہو جو پی ٹی وی سے ہو کر گئے تھے تاہم یہ بھی صحیح ہے کہ پی ٹی وی میں سرکاری پالیسیوں کی گھٹن اور لیڈر شپ کی طرف سے جدت اور Initiative کی حوصلہ شکنی نے ورکرز کے ٹیلنٹ کو ناکامی سے دوچار کیا۔ پالیسی کی حد تک سیاسی اور فوجی حکومتوں کا اتفاق رائے رہا ہے،52 سال کی پی ٹی وی کی تاریخ میں بہت مختصر چند وقفے آئے جب پی ٹی وی کو ایڈیٹوریل آزادی ملی۔ ایک دفعہ تو وزیر اطلاعات جاوید جبار کو اسی شوق میں وزارت بھی قربان کرنا پڑی۔ یہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا ابتدائی دور تھا۔ اب نجی چینلوں کی بھرمار سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیشِ نظر پی ٹی وی کو لبر الائز کرنے کی ضرورت اور موقع تھا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور عجب ستم ظریفی ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہی نجی چینل بنے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ نجی چینلوں کی اکثریت نے شعوری یا غیر شعوری طور پر منفی ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے یہ حکومت کے لئے بھی منفی ہے اور وسیع تناظر میں معاشرے کے لئے بھی، ان چینلوں نے حکومت کا تقریباً بائیکاٹ کر رکھا ہے اور صرف منفی خبریں دی جاتی ہیں۔

ایک صحافی کی حیثیت سے مَیں بعض دفعہ یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ کوئی غیر ملکی وزیر خارجہ یا کوئی اور اہم آدمی پاکستان کے دورے پر آیا ہے تو نجی چینل اس کا تقریباً بائیکاٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کسی ترقیاتی منصوبے کا افتتاح کر رہے ہیں تو اس کا بھی بائیکاٹ مثلاً حال ہی میں اسلام آباد میں اہلِ قلم کانفرنس ہوئی، جس میں مُلک بھر سے چار پانچ سو اہلِ قلم کے علاوہ کچھ غیر ملکی مہمانوں نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم نے افتتاح اور صدر نے افتتاحی تقریب سے خطاب کیا ،لیکن کسی چینل نے لائیو نہیں دکھایا اور نہ ہی شاید کسی نے کوئی پروگرام کیا۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اس صورتِ حال میں حکومت کا پی ٹی وی پر انحصار بڑھ گیا ہے۔

پی ٹی وی ہی ایک چینل ہے، جس کے ذریعے حکومت اپنا نقطہ نظر لوگوں تک پہنچا سکتی ہے۔ پی ٹی وی اور وزارتِ اطلاعات کے ارباب اختیار کو سوچنا چاہئے کہ اِن حالات میں پی ٹی وی کو مضبوط کرنے کی بڑی ضرورت ہے، لیکن نظر ایسا آتا ہے کہ انہوں نے پی ٹی وی سے سرے سے توجہ ہٹا لی ہے اور اس قومی ادارے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت پی ٹی وی میں قیادت کا شدید بحران ہے، ایم ڈی اور ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر کی پوسٹ خالی ہے۔ ایم ڈی کی پوسٹ ایک سال سے خالی ہے اور ابھی تک بھرتی کے لئے اشتہارہی نہیں دیا گیا۔ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی پوسٹ پر ہفتوں اور مہینوں میں تبدیلی ہو رہی ہے۔ انگریزی چینل پی ٹی ورلڈ بھی ایک کنٹرولر کے حوالے ہے، نہ اس کا کوئی ڈائریکٹر ہے اور نہ چینل ہیڈ۔ ڈائریکٹر نیوز حال ہی میں مقرر کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے ایک کنٹرولر کے پاس بڑی دیر چارج رہا، اس شخص کی کنٹرولر کی پوسٹ پر ترقی بھی مشکوک طریقے سے کی گئی تھی۔ نتیجہ حسبِ توقع بہت خراب نکلا اور پی ٹی وی کی تاریخ میں ایک ناخوشگوار باب کا اضافہ ہو گیا اور اس شخص کو ملازمت سے ڈسمس کر دیا گیا، لیکن بعد از خرابی بسیار۔ یہ ساری صورتِ حال پی ٹی وی میں قیادت کے خلاسے پیدا ہوئی ہے، اب بھی وقت ہے کہ ادارے کی تنظیم نوکی جائے اور ایک فل ٹائم ایم ڈی مقرر کیا جائے۔ ایک تجربہ کار شخص کو پی ٹی وی نیوز کا چینل ہیڈ مقرر کیا جائے، جو صورتِ حال کو سنبھال سکے۔ انگریزی چینل کے لئے بھی ایک سینئر آدمی کی ضرورت ہے۔

پی ٹی وی کے زوال کی کہانی کئی عشروں پر محیط ہے ہر حکومت اور شاید ہر ایم ڈی نے اس میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا ہے۔ پیپلزپارٹی نے بے شمار لوگوں کو صرف سیاسی بنیادوں پر ملازم رکھا، جن کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں پی ٹی وی اور وزارت اطلاعات میں ایسے پارٹی وفا داروں کی تنخواہوں پر کروڑوں روپے سالانہ خرچ ہوتے تھے۔ میرٹ کی پامالی اور اقربا پروری بہت برسوں سے عروج پر ہے۔ باہر سے آنے والے منیجنگ ڈائریکٹروں نے بھی ایک آدھ کے سوا ادارے کے وسائل کا اپنے فائدے کے لئے بھرپور استعمال کیا۔ انہوں نے اندر کام کرنے والوں کی نسبت دس گنا تنخواہوں پر اپنے دوستوں کو نوازا اور پی ٹی وی کے مستقل ملازمین میں میرٹ کو نظر انداز کر کے ایسے فیصلے کئے، جن کے دور رس منفی اثرات نکلے۔ پھر نجی شعبے میں میڈیا کا دور شروع ہوا تو ہماری انتظامیہ نے اس چیلنج کے لئے تیاری نہیں کی، نتیجہ ظاہر ہے کہ پی ٹی وی کا گراف بہت نیچے چلا گیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اگر اب بھی صورت حال کو نہ سنبھالا گیا تو ادارے کی اندرونی صورتِ حال بد سے بد ترین ہو جائے گی اور یہ ایک مجرمانہ غفلت ہو گی۔ کیا پی ٹی وی کا انجام بھی سٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے جیسا ہو گا؟

اے خالق سرگانہ

Post a Comment

0 Comments