All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ست پارہ ڈیم : جہاں کبھی جھیل تھی

ست پارہ جھیل اپنے پانی کے گہرے، انتہائی گہرے سبز رنگ، وسط میں واقع ایک چھوٹے سے جزیرے اور اپنی وسعت کے باعث مجھے بے حد محبوب تھی ۔ اب یہاں ست پارہ ڈیم بنایا جا رہا ہے۔ بلندی سے دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پتھر کی انگشتری میں ایک گہرا سبز زمرد جڑا ہوا ہے۔ جو قریب آنے پر پھیل کر ست پارہ جھیل بن جاتا ہے۔ دیوسائی سے واپسی پر پہلے ست پارہ گائوں آتا ہے۔ اور ہرے بھرے کھیت اور سبز درختوں کے جھنڈ اس پتھریلے منظر میں رنگ بھرنے لگتے ہیں۔ پھر بائیں ہاتھ جھیل کو رکھتے ہوئے راستہ سکردو شہر کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ ڈیم کی تعمیر جاری تھی اور جھیل کی سطح بلند ہو کر کافی وسیع ہو چکی تھی۔ اور اس کے درمیان چھوٹا سا ٹاپو بہت حد تک ڈوب چکا تھا اور اب صرف اس کا بالائی سرا اور چند درختوں کی چوٹیاں دکھائی دیتی تھیں۔
اس جھیل سے سکردو کو پینے کا پانی بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ جو ایک تندوتیز پختہ نالے کی شکل میں آپ کے ساتھ ساتھ سکردو تک چلتا ہے۔ جب ہم کچی پگ ڈنڈی پر چلتے اس ٹیلے پر پہنچے جہاں بدھ کے مجسمے والی چٹان زیرِ آسمان پڑی موسموں کے تغیر جھیل رہی ہے تو یہ دیکھ کر دکھ ہوا اس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔  بس اس کے گرد خاردار تار کی باڑ لگا کر کانٹوں والی جھاڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ (پہلے تو یہ بھی انتظام نہیں تھا)۔ پھر ہمارے بھائیوں نے نہایت بھدے اور جلی حروف میں سرخ روغن سے اس تاریخی چٹان پر ’’نظر سے قتل کرڈالو نہ ہو تکلیف دونوں کو۔‘‘ جیسے بازاری شعر اور اپنے نام پتے ’’دائود خان آف ------ ‘‘ وغیرہ مع ٹیلی فون نمبروں کے درج کر دئیے ہیں۔ مجھے نہیں علم کہ اس کام کا مقصد یا فائدہ کیا ہے؟ البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی غیر اسلامی ملک میں مسلمانوں کے کسی مقدس مقام کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے تو ہمارے جذبات اور احساسات کیا ہوں گے؟ ہم کچھ دیر خاموش بیٹھے سستاتے رہے۔ اگر آپ بدھ صاحب کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں تو آپ کی دائیں جانب دور تک سکردو کی آبادی اور اس سے پرے افق میں گم ہوتا صحرائی منظر پھیلا دکھائی دیتا ہے.

عمران الحق چوہان

 

Post a Comment

0 Comments