All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں نیم فوجی فورسز کہاں کہاں تعینات ہیں؟

پاکستان میں پنجاب رینجرز ویسے تو صوبے کے بعض ضلعوں کے علاوہ ملک
کے دیگر علاقوں میں بھی اندرونی سلامتی سے متعلق فرائض انجام دے رہی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس نیم فوجی دستے کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں قیامِ امن کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان رینجرز کو ملک کا سب سے بڑا نیم فوجی دستہ تصور کیا جاتا ہے جس کے قیام کا مقصد ملک کی مشرقی سرحد کی حفاظت کرنا ہے۔ پاکستان کے دو صوبوں سندھ اور پنجاب کی سرحد انڈیا کے ساتھ ملتی ہے اس لیے ان دو صوبوں میں پاکستان رینجرز کے صدر دفاتر بنائے گئے ہیں۔

صوبہ سندھ میں 'سندھ رینجرز' کئی دہائیوں سے سرحدوں کے علاوہ شہری علاقوں میں بھی قیام امن کی ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔ پنجاب رینجرز کی ویب سائٹ پر شائع تفصیلات مطابق سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ پنجاب ریجنرز بوقت ضرورت ملک کے اندر قیام امن کی ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے۔ ضرورت کے مطابق قلیل مدت کی تعیناتی کے علاوہ ملک کے بعض علاقوں میں پنجاب رینجرز قیام امن کے لیے مستقل بنیادوں پر بھی تعینات ہیں جن میں گلگت بلتستان، اسلام آباد، تربیلا، راجن پور کے علاوہ صوبہ سندھ کا ضلع کشمور بھی شامل ہے۔ رینجرز کی صوبائی سطح پر سربراہی میجر جنرل رینک کا فوجی افسر کرتا ہے جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہوتا ہے۔
رینجرز کی طرح اس نیم فوجی دستے کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک بلوچستان میں امن قائم کرنے کی ذمہ داری ادا کرتا ہے جب کہ دوسرا حصہ خیبر پختونخوا اور وفاقی کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں تعینات ہے۔ رینجرز کی طرح اس نیم فوجی دستے کی قیادت بھی صوبے کی سطح پر میجر جنرل کے رینک کا فوجی افسر کرتا ہے اور وہ اصولی طور پر وزارت داخلہ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ لیکن ان دونوں صوبوں میں جاری شورش اور شدت پسندی کے باعث فرنٹئیر کور کے اختیارات رینجرز کے مقابلے میں بہت مختلف اور زیادہ ہیں جن پر بعض سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کی جانب سے گاہے بگاہے تنقید بھی سامنے آتی رہتی ہے۔

فرنٹیئر کانسٹیبلری
ملک کے چاروں صوبوں میں ان بڑے نیم فوجی دستوں کے علاوہ بعض دیگر نیم فوجی دستے بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں قیام امن کے لیے پولیس کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری ان میں نمایاں ہے۔ یہ فورس بنیادی طور پر خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے پولیس کی معاونت کے لیے بنائی گئی تھی لیکن اہم مقامات، خاص طور پر غیر ملکی سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے اس فورس کے اہلکار ملک بھر میں تعینات کیے جاتے ہیں۔ اس فورس کو باقاعدہ طور پر وفاقی نیم فوجی دستہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی سربراہی پولیس افسر کرتا ہے جسے وفاقی وزارت داخلہ براہ راست تعینات کرتی ہے۔

لیویز
یہ نیم فوجی دستہ صوبہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں کے مختلف اضلاع میں تعینات کیے جاتے ہیں۔ ان دستوں کی قیادت تو پاکستان کی بری فوج کے افسر کرتے ہیں لیکن ان میں مقامی افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ ان مقامی نیم فوجی دستوں کو قائم کرنے کا مقصد ان افراد کا اپنے علاقوں کے بارے میں معلومات کو استعمال کرنا بھی بتایا جاتا ہے۔ ان مقامی نیم فوجی دستوں میں چترال سکاؤٹس، خیبر رائفلز، سوات لیویز، کرم ملیشیا، ٹوچی سکاؤٹس، ساؤتھ وزیرستان سکاؤٹس، ژوب ملیشیا اور گلگت سکاؤٹس شامل ہیں۔

دیگر نیم فوجی دستے
ملکی بندرگاہوں، سمندری حدود اور ہوائی اڈوں کی حفاظت کے لیے چھوٹے چھوٹے نیم خود مختار نیم فوجی دستے بھی بنائے گئے ہیں جن کا مینڈیٹ مخصوص علاقوں یا تنصیبات کی حفاظت تک ہی محدود ہوتا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوص فورسز
گذشتہ چند برسوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے خود مختار حفاظتی دستے بھی تیار کیے ہیں جن کے بارے میں زیادہ معلومات جاری نہیں کی جاتیں۔ ان میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے لیے تیار کی گئی خصوص فورس، پولیس اور دیگر انٹیلیجن ایجنسیوں کے اپنے نیم فوجی دستے شامل ہیں۔ ان تمام نیم فوجی دستوں کی تعداد کو خفیہ رکھا جاتا ہے تاہم بعض اندازوں کے مطابق ان تمام فورسز کی مجموعی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے۔

آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments