All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

طیبہ کیس کا ''خوشگوار'' انجام ؟

مجھے تو رتی بھر حیرت نہیں ہوئی کہ طیبہ کے والدین نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن
جج اور ان کی اہلیہ کو تشدد کرنے پر معاف کر دیا ہے اور دونوں ملزموں سے صلح کر لی ہے، جس کے بعد یہ قصہ بھی تمام ہو گیا ہے۔ ایسے تو ہزاروں واقعات میری زندگی میں فلم کی طرح گزرے ہیں، جب کسی بااثر کے خلاف کمزور انصاف کے لئے کھڑا ہوا، دو چار دن انصاف کے رکھوالوں نے بھی اس کا ساتھ  دیا اور معاشرہ بھی اس کے ہمرکاب ہوا، لیکن پھر خبر آئی کہ اس کمزور نے ایک طاقتور کو معاف کر دیا ہے۔ اب بہت سے بقراطی دانشور بھی کہہ سکتے ہیں کہ معاف کر دینا تو عظمت کی نشانی ہے، مگر وہ اس بات کا شاید ہی جواب دے سکیں کہ ہر بار کمزور ہی کیوں معاف کرتا ہے، کبھی کسی طاقتور کو بھی غریب اور مظلوم کو معاف کرتے دیکھا ہے، اسے تو وہ عبرت کا نشان بنا دیتا ہے، اس پر کتے چھڑواتا ہے، اس کی ٹانگیں تڑواتا ہے، آنکھیں نکلوا دیتا ہے اور ظلم کا ہر حربہ اختیار کرتا ہے، پھر بھی اس کی تشفی نہیں ہوتی۔

جب قانون کچھوے کی چال چلے گا تو طیبہ جیسے کیس کے مدعی کب تک کسی طاقتور کا دباؤ برداشت کریں گے؟ سب کچھ تو سامنے آ گیا تھا۔ پولیس کی تفتیش، میڈیکل رپورٹ اور زمینی حقائق نے تو ثابت کر دیا تھا کہ طیبہ پر بدترین تشدد ہوا ہے اور انہی دونوں ملزموں نے کیا ہے، مگر انہیں ایک دن بھی جیل نہیں بھیجا گیا، گرفتار کرکے تفتیش نہیں کی گئی، قانون کی موشگافیاں ان کی ڈھال بنتی رہیں۔ادھر طیبہ کے والدین اسلام آباد میں رلتے رہے، پھر انہیں چند ٹکوں کی پیش کش کی گئی ہو گی، یہ بھی باور کرایا گیا ہوگا کہ ایک جج کے خلاف تمہیں انصاف نہیں ملے گا، یہ چند ٹکے جو مل رہے ہیں، انہیں وصول کرو اور صلح نامہ لکھ دو۔ ویسے بھی تم نے پاکستان ہی میں رہنا ہے، یہاں سے بھاگ نہیں جانا، تمہارے لندن یا امریکہ میں فلیٹس نہیں کہ جہاں تم یہاں سے جا کر شاہانہ زندگی گزار سکو، اس لئے جو ملتا ہے لو اور طیبہ کو اس صدمے کے ساتھ، جو اب اس کے دماغ سے ساری زندگی نہیں نکلے گا، کسی محفوظ جگہ لے جاؤ اور زندگی گزارو۔ سویہ سب کچھ تو ہوتا آیا ہے، ہوتا رہے گا۔ انصاف کے اسی طرح شادیانے بجتے رہیں گے، عدل کا اسی طرح بول بالا ہوتا رہے گا۔ آج طیبہ تھی تو کل کوئی رضیہ اسی طرح سامنے آئے گی، سوموٹو ایکشن کے ذریعے ملک بھر میں انصاف کی دہائی مچ جائے گی، پھر یہ خبر ملے گی کہ رضیہ کے والدین نے فی سبیل اللہ بااثر شخصیت کو معاف کر دیا ہے اور اب ہنسی خوشی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے زمانے میں بھی میری طرح پوری قوم یہ دیکھتی تھی کہ ظلم و زیادتی کے کسی واقعہ پر سپریم کورٹ بڑی شدومد اور جانفشانی سے ازخود نوٹس لیتی۔ آئی جی، چیف سیکرٹری اور نجانے کون کون سے با اختیار افسر طلب کئے جاتے، ملزموں کی گرفتاری کا حکم دیا جاتا، ہٹو بچوکی صدائیں گونجتیں اور پھر اس ساری مشق کے بعد تان صلح نامے پر ٹوٹتی اور سب ہاتھ جھاڑ کر اللہ اللہ خیر سلا کا ورد کرنے لگتے۔ مَیں نے تونہیں سنا یا دیکھا کہ کسی مظلوم کے مقابلے میں کسی ظالم طاقتور کو سزا ملی ہو۔ بس دو چار دن کا میڈیا پر تماشا ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ملک میں انصاف سوئے ہوئے ببر شیر کی طرح اچانک دھاڑتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، لیکن پھر انگڑائی لے کر سو جاتا ہے اور معاملات کسی اگلے ظلم کے واقعہ تک جوں کے توں چلتے رہتے ہیں۔ مَیں تو پہلے دن سے سمجھتا تھا کہ طیبہ کیس میں ایک بے جوڑ مقابلہ رکھ دیا گیا۔ 
ممولے کو شہباز سے لڑانے کا مقابلہ، چیونٹی سے ہاتھی مروانے کا مقابلہ، عفریتوں میں گھرے مظلوم کو طاقتور کے سامنے کھڑا کر دینے کا مقابلہ، اس مقابلے کا کیا انجام ہونا ہے اس مملکتِ خدا داد میں، یہ تو اندھے کو بھی پتہ ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم یہ مزاحیہ فلم بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور بڑی بڑی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں ۔ شیدے ریڑھی والے کے خلاف کوئی مقدمہ شقدمہ ہو جائے تو پولیس آؤ دیکھتی ہے نہ تاؤ، صبح دیکھتی ہے نہ شام، ثبوت مانگتی ہے، نہ تفتیش کرتی ہے، سیدھا اٹھا کے تھانے میں باقی سارے مراحل اس کے بعد طے ہوتے ہیں۔ مگر کسی بااثر شخص کے خلاف ثبوت بھی آ جائیں اور تمام شواہد بھی، اسے ضمانت قبل از گرفتاری کی شاہانہ سہولت فراہم کی جاتی ہے اور اس وقت تک یہ سہولت واپس نہیں لی جاتی جب تک اس کے خلاف مقدمہ درج کرانے والا مظلوم اسے معاف نہ کر دے۔ ایسے حالات میں مظلوم فریق کی حالت مرتا کیا نہ کرتا، جیسی ہوتی ہے۔

آپ دیکھیں کہ پاکستان میں معاملات کو کتنی خوبصورتی سے نمٹایا جاتا ہے۔ طیبہ کیس کے بعد جب ایک صلح نامہ تیار کیا جاتا ہے تو پورے ملک میں دہائی مچ جاتی ہے کہ ایک حاضر سروس جج نے اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر طیبہ کے والدین کو صلح پر مجبور کر دیا۔ عدلیہ پر تنقید ہونے لگتی ہے تو سوموٹو ایکشن کے ذریعے یہ معاملہ ایک نئی شکل اختیار کر جاتا ہے، طیبہ کو برآمد کرایا جاتا ہے، جج کو معطل کر دیا جاتا ہے، پولیس سے رپورٹ طلب کی جاتی ہے، کیس میں تشدد ثابت ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہ تشدد جج صاحب کی اہلیہ نے ہی کیا اور شوہر نے معلوم ہونے کے باوجود اسے نہیں روکا۔ دو چار دن کی پیشیوں کے بعد جب گرد بیٹھتی ہے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ابتدا ہی میں نکل آیا تھا، یعنی صلح ہوجاتی ہے۔ پہلی صلح اگر غیر قانونی قرار پائی تھی تو دوسری قانونی قرار پاتی ہے۔ ہر ایسے کیس کی، جس میں ایک طرف طاقتور اور دوسری طرف کمزور ہو، یہی کہانی نکلتی ہے اور اس کا نتیجہ بھی یہی ہوتا ہے۔

اس کے بعد حالات پھر اسی ڈگر پر چل نکلتے ہیں۔ پولیس آئے روز شہریوں پر تشدد کرتی ہے، جعلی پولیس مقابلوں میں بندے مارتی ہے۔ گھسی پٹی ایک ہی کہانی گھڑتی ہے، سب کو معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ اور فریب سے اس کہانی کو تیار کیا گیا ہے، مگر کسی پولیس والے کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ 302 کے مقدمات تک درج ہو جاتے ہیں، لیکن آج تک کوئی بتائے کہ کسی پولیس والے کو سزا ہوئی ہو، اسے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ مدعیوں پر دباؤ ڈال کر صلح نامہ لکھوائے اور پھر کسی جعلی پولیس مقابلے کے لئے تیار ہوجائے۔ اس بار ذرا معاملہ مختلف تھا۔ پولیس کی بجائے ایک حاضر سروس جج مظلوم کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے تھے۔ ملک میں عدلیہ کے نئے کردار کی بازگشت بھی سنائی دے رہی تھی،اس لئے خواہ مخواہ یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اس بار کم از کم ایک اچھی مثال قائم کر دی جائے گی۔ ریاست پوری طرح طیبہ اور اس کے خاندان کی پشت پر آ کھڑی ہو گی۔ ایک تیز رفتار عمل سے گزار کراس کیس کا فیصلہ کیا جائے گا، تا کہ ملک بھر میں یہ پیغام جائے کہ آئندہ کسی نے ایسا ظلم کیا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر صاحب کہاں؟ طبقہ اشرافیہ کی گرفت اتنی کمزور تو نہیں، جو طیبہ جیسی کسی معصوم بچی کے ہاتھوں ٹوٹ جائے۔ اس میں اتنی طاقت تو ہے کہ وہ اس ملک کے لولے لنگڑے نظام کو اپنے گٹھ جوڑ سے مفلوج کرکے رکھ دے اور غریبوں کو یہ سوچنے کی بھی جرأت نہ ہو کہ انہیں طاقتور کے مقابلے میں انصاف مل سکتا ہے۔

مَیں بھی ایک خوش فہم آدمی ہوں۔ ایسا خوش فہم جو تنکوں سے بھی دریا پار کرنے کی اُمیدیں باندھ لیتا ہے۔ طیبہ کیس سامنے آیا اور سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد جس طرح پورے ملک میں ہاہا کار مچی، میرا خیال تھا کہ اب حالات بہتری کی طرف ضرور جائیں گے۔ خاص طور پر چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی۔ اسے محکمہ لیبر کی دسترس سےنکال کر پولیس کی دسترس میں دے کر قابل دست اندازی پولیس بنا دیا جائے گا۔ طیبہ کیس ملک میں ایک بہت بڑی مثال ثابت ہو گا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ اس کا نتیجہ بھی’’ڈھاک کے تین پات‘‘ ہی نکلے گا۔ جو اشرافیہ اسمبلیوں کے اندر بیٹھی ہے، اس کے تو ڈیرے ہی ایسے غریبوں کے بچوں سے آباد ہیں۔ معصوم بچوں کو ان کی بیگمات اپنی خدمت کے لئے وقف رکھتی ہیں اور غلامی کا یہ سلسلہ نسل درنسل چلتا ہے۔ بڑا شوروغوغا ہوتا ہے کہ بچوں کو سکول نہ بھیجنے والے والدین کے خلاف یہ ہو جائے گا، مگر ہوتا اس لئے کچھ نہیں کہ گھروں میں کام کرنے والی بچوں کی فوج تو ہے ہی بااثر افراد کی غلام۔

طیبہ کیس توکسی وجہ سے سامنے آ گیا، گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے، اس کی تو صرف کہانیاں ہی سامنے آتی ہیں، کاش ایسی کہانیاں بھی سامنے نہ آئیں۔ کاش طیبہ کیس جیسے واقعات پر پردہ پڑا رہے، تا کہ ہم اپنے نظام انصاف کی تعریفیں سن کر بھنگڑے ڈالتے رہیں، لیڈروں کے اس بیان پر تالیاں بجاتے رہیں کہ کسی غریب پر ظلم کو برداشت نہیں کیا جائے گا، قانون سب کے لئے برابر ہے وغیرہ وغیرہ۔ طیبہ کیس ایک بار پھر ہمارے نظام انصاف کی چولیں ہلا گیا ہے۔ ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ایسے واقعات کا خوشگوار انجام یہی ہوتا ہے کہ مظلوم ہاتھ جوڑ کر صلح کرلے اور طاقتور کو اس طرح معاف کرے کہ اس کا ظلم، طاقت اور کروفر مزید شدت کے ساتھ نمایاں ہو جائے۔ طیبہ کیس کے اس ’’خوشگوار‘‘ انجام پر ملک کے غریبوں کو بہت بہت مبارک باد کہ اس میں کم از کم انہیں کسی کو معاف کرنے کا جھوٹا سچا موقع تو ملا، وگرنہ تو ان کی ساری زندگی طاقتوروں سے معافیاں مانگتے ہی گزر جاتی ہے۔

نسیم شاہد

Post a Comment

0 Comments