All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا نشہ

ایک حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طلبہ کی تقریباً 16.7 فیصد تعداد انٹرنیٹ کے نشے میں مبتلا ہے اور اس سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں یکساں طور پر متاثر ہیں۔ پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک مقالے کے مطابق آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے جن طلبہ نے تحقیق میں حصہ لیا، ان میں سے 16.1 فیصد انٹرنیٹ کے درمیانے نشے میں مبتلا پائے گئے، جب کہ 0.6 فیصد کو اس نشے کا شدید طور پر شکار کہا جا سکتا ہے۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق انٹرنیٹ کا عادی ہونے کے معاملے میں کوئی صنفی امتیاز نہیں پایا گیا اور طلبہ اور طالبات تقریباً یکساں شرح سے اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔

تحقیق میں ایک اور بات یہ سامنے آئی کہ جو طلبہ کسی قسم کے کھیلوں یا جسمانی سرگرمی میں حصہ لیتے تھے، ان کے اس مخصوص نشے میں گرفتار ہونے کی شرح دوسروں کے مقابلے پر کم تھی۔ انٹرنیٹ کو عام ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، لیکن حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ انٹرنیٹ کے نشے کے لیے باقاعدہ طبی اصطلاح 'انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر' یا آئی اے ڈی وضع کی جا چکی ہے، جس کی تعریف کچھ یوں ہے: 'انٹرنیٹ کے استعمال میں خود پر قابو نہ رکھ پانا، جس کی وجہ سے مریض جسمانی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔'
انٹرنیٹ جہاں ایک طرف طلبہ کو رابطے، معلومات اور تفریح کا سستا اور سہل وسیلہ فراہم کرتا ہے، تو دوسری جانب یہ ان نوجوانوں کو کسی نشے کی طرح اپنی لپیٹ میں بھی لے سکتا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کا استعمال جنگل کی آگ کی طرح پھیلا ہے۔ سوشل میڈیا مینیجمنٹ کے ادارے ہُوٹ سویٹ کی رپورٹ 'ڈیجیٹل ان 2017' کے مطابق 2016 کے مقابلے پر حالیہ برس میں پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال میں 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اب ملک بھر میں ساڑھے تین کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، جن کا 72 فیصد حصہ موبائل فون کے ذریعے آن لائن ہوتا ہے۔

ظاہر ہے کہ اس تعداد کا بہت بڑا حصہ طلبہ پر مشتمل ہے، جو اپنی پڑھائی کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ پر تعلیمی وسائل کی کوئی حد نہیں اور یہ میڈیم طلبہ کو تعلیم و تحقیق میں بہت مدد دے سکتا ہے، لیکن کسی بھی طالبعلم کو پڑھائی کے دوران توجہ کے ارتکاز کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن انٹرنیٹ اس کے بالکل برعکس توجہ بٹانے کے بےشمار مواقع فراہم کرتا ہے، جس سے طالبعلم بھٹک کر کسی اور طرف نکل جاتا ہے۔ جرنل آف میڈیکل سائنسز میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج کے مطابق طلبہ و طالبات یکساں طور پر انٹرنیٹ کے اسیر تھے۔ تاہم ہانگ کانگ اور ایران میں اسی قسم کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لڑکے زیادہ اس عارضے کا شکار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ جو طلبہ کسی قسم کی جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، ان کے اندر اس نشے کا شکار ہونے کی شرح کم تھی، کیوں کہ ایسے طلبہ جلدی سونے کے عادی تھے اور وہ اپنے وقت کا خاصہ حصہ موبائل یا لیپ ٹاپ سے دور کھیل کے میدان میں گزارتے تھے۔ عام طلبہ کے مقابلے پر انٹرنیٹ کے عادی طلبہ میں امتحانات میں ناکامی کی شرح ڈھائی گنا زیادہ تھی۔ تحقیق تحقیقی مقالے کے مرکزی مصنف لیفٹیننٹ کرنل پروفیسر عالمگیر خان آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں پروفیسر آف فزیالوجی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’انٹرنیٹ کا نشہ کسی بھی دوسرے نشے کی مانند ہوتا ہے اور اس کے چھوٹنے کی بھی ویسے ہی جسمانی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔'

اس نشے میں اور دوسرے نشوں میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 'نشے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کسی چیز کے عادی ہو جائیں اور وہ چیز آپ کو نہ ملے تو اس سے زندگی میں دلچسپی ہی ختم ہو جائے، کوئی چیز اچھی نہ لگے، آپ چڑچڑے پن کا شکار ہو جائیں، یا ڈیپریشن میں چلے جائیں۔' انھوں نے کہا کہ ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’انٹرنیٹ کے نشے کا شکار لوگوں سے آپ ان کے گیجٹ لے لیں تو انھیں لگتا ہے کہ جیسے زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔'

اس سے قبل پروفیسر عالمگیر اور ان کے ساتھیوں کی ایک اور تحقیق سے ظاہر ہوا تھا کہ انٹرنیٹ کا نشہ طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں پر بری طرح سے اثرانداز ہوتا ہے۔ جرنل آف اسلامک انٹرنیشنل میڈیکل کالج میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق عام طلبہ کے مقابلے پر انٹرنیٹ کے عادی طلبہ میں امتحانات میں ناکامی کی شرح ڈھائی گنا زیادہ تھی۔ پروفیسر عالمگیر کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کا کردار بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں، خاص طور پر ایسے بچوں پر نظر رکھیں جن کی تعلیمی کارکردگی اچھی نہیں ہے اور دیکھیں کہ کہیں وہ انٹرنیٹ کے نشے کا شکار تو نہیں ہو گئے؟

پاکستان میں کیے جانے والے ان مطالعہ جات سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ کسی بھی ٹیکنالوجی کی طرح انٹرنیٹ بھی دودھاری تلوار کی مانند ہے اور یہ بےتحاشا فائدے کے ساتھ ساتھ بے پناہ نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ اس معاملے میں طلبہ، والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں سب کو محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

ظفر سید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments