All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سپین خوڑ : دشوار راستوں میں چھپی ایک دلکش جھیل

سپین خوڑ، پشتو زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ،سفید یا صاف و شفاف پانی کی
ندی کے ہیں۔ سوات کی سپین خوڑ جھیل شمال کی طرف سے کنڈول جھیل اور مشرق کی طرف سے وادیٔ اتروڑ کے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ یونین کونسل اتروڑ، سوات کے ضلعی صدر مقام سیدو شریف سے 120 کلومیٹر اور کالام سے 16 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ بحرین سے آگے سڑک کی حالت کافی خستہ ہونے کی وجہ اس پر سفر کرنے کے لیے فور بائے فور گاڑی ایک بہترین انتخاب ہے۔ سپین خوڑ جھیل تین اطراف (مشرق، شمال، جنوب) سے فلک بوس پہاڑوں کے درمیان گھِری ہوئی ہے۔ مغربی طرف سے بڑے بڑے پتھروں نے جھیل کے نیلے پانی کا راستہ روک رکھا ہے، جس وجہ سے پانی نے ان پتھروں کی بیچ گہرائی میں سے اپنا راستہ نکال لیا ہے، جو ایک آبشار کی شکل میں جھیل سے کوئی ایک گھنٹے کی مسافت پر نیچے پہاڑ کے دامن میں گرتا ہے۔
سپین خوڑ جھیل تک رسائی دو راستوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ پہلا راستہ وادیٔ لدو سے ہو کر کنڈول جھیل کی طرف سے نکلتا ہے، جہاں سے کم وقت میں سپین خوڑ جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے، لیکن یہ ایک انتہائی دشوار گزار راستہ بھی ہے اور ٹریکنگ کا تجربہ نہ رکھنے والوں کے لیے پر خطر بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا راستہ وادیٔ لدو میں جنگل سے نکلتا ہے، جو قدرے بہتر اور سہل ہے۔ سپین خوڑ آبشار پہنچنے پر مذکورہ راستہ مزید دو چھوٹے راستوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ آبشار کی طرف کھڑے ہو کر دائیں طرف شروع ہونے والا راستہ گھنے جنگل میں سے ہو کر مسلسل چڑھائی کی شکل میں اوپر جھیل تک پہنچتا ہے۔ اس راستے سے چل کر انسان قدرت کو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر پاتا ہے۔

گھنے جنگل میں مختلف پرندوں کی مسحور کن آوازیں گویا کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ چاروں طرف سبزہ، ہریالی اور رنگ برنگے جنگلی پھول آنکھوں کو تراوت بخشتے ہیں۔ قدم قدم پر چھوٹے چھوٹے جھرنے شور مچا کر پیاس بجھانے کے لیے اپنی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر ہر دس پندرہ منٹ بعد مختلف گھاٹیوں میں جمی ہوئی برف پورا کر دیتی ہے، مگر اس راستہ کے ساتھ صرف ایک مشکل ہے کہ یہ آبشار کے مقام سے قریب ڈھائی تین گھنٹے تک کا ایک صبر آزما مرحلہ ہے۔ واضح رہے کہ وادیٔ لدو سے سپین خوڑ آبشار تک کا راستہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے کا ہے۔ یوں کْل ملا کر یہ سفر پانچ تا چھ گھنٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسرا راستہ آبشار کی بائیں جانب سے ہوکر سیدھا جھیل تک لے جاتا ہے۔ یہ راستہ بڑے بڑے پتھروں کے درمیان میں سے گزرتا ہے چونکہ یہاں قریباً ہر بارش کے بعد چھوٹی بڑی سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہے، اس لیے اس راستے پر درخت نامی کوئی شے نہیں۔

سلائیڈنگ کی وجہ سے راستے میں بڑے بڑے پتھرقریباً جھیل تک بکھرے پڑے نظر آتے ہیں۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے سورج کی شعاعیں وقتاً فوقتاً تنگ کرتی رہتی ہیں اور پیاس بھی خوب لگتی ہے چونکہ راستے میں دو تین جگہوں پر پتھروں کے درمیان پانی گزرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس لیے پیاس بآسانی بجھائی جا سکتی ہے۔ بہتر ہے، اگر دورانِ سفر پانی کی بوتل ساتھ رکھی جائے، اگر پہاڑوں پر چڑھنے کی تھوڑی بہت مشق ہو، تو اس راستے سے دو گھنٹوں میں جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس طرح کل ملا کر اس راستے سے ساڑھے تین گھنٹوں کی مسافت کے بعد جھیل تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ راستے میں وقتاً فوقتاً گائیڈز بھی ہمیں قیمتی معلومات فراہم کرتے رہے۔ جب ہماری ٹیم نے وادیٔ لدو سے پیدل سفر کا آغاز کیا، تو وادیٔ اتروڑ کے محمد رحیم (گائیڈ) نے ایک سفید پھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پودے کی جڑ ہم دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سفید پھول والے اس پودے کو ہمارے علاقے میں ’مابیک‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی جڑ کو حاصل کرنے کے بعد اسے یہاں روایتی طور پر سکھایا جاتا ہے۔ سکھانے کے بعد ان کو پیسا جاتا ہے اور پھر اسے دیسی گھی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ کمر درد کے لیے یہ دوا تیر بہدف نسخہ ہے۔ ایک اور پودا ملہم (مرہم) ہے، جسے جب چبایا جاتا ہے تو وہ چیونگ گم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے پتوں کو چبانے کے بعد ہم زخم پر رکھتے ہیں۔ زخم چاہے کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، ہم روایتی انداز میں ملہم کو دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مابیک کے پودے سپین خوڑ جھیل جبکہ ملہم کے پودے اسمس جھیل کے راستے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ایک صبرآزما مرحلے کے بعد جب سانس پھولی ہوئی ہوتی ہے، پسینے چھوٹ رہے ہوتے ہیں اور ایسے میں جب جھیل پر پہلی نظر پڑتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی منہ سے مارے خوشی کے چیخ نکل جاتی ہے۔ سینے میں دل دھکڑ پکڑ کرنے لگ جاتا ہے۔ 

میں 21 مئی کو ایس پی ایس ٹریکنگ کلب (سوات) کے ممبران کے ساتھ جھیل پر پہنچا تو جھیل کے کناروں پر اچھی خاصی برف نظر آئی۔ جھیل کے کناروں پر نیلگوں پانی میں برف کے بڑے بڑے ٹکڑے تیرتے دکھائی دے رہے تھے۔ سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا، مگر ہوا اتنی سرد اور تیز تھی کہ ہمیں گرم کپڑے نکال کر پہننا پڑے۔ ایسی سرد ہواؤں کا راج سوات کے میدانی علاقوں میں دسمبر یا جنوری میں ہی ہوا کرتا ہے۔ جھیل کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں سے پانی خارج ہونے کا بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا، مگر پشتو کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ د اُوبو لارہ چا نیولی (پانی کا راستہ کس نے روکا ہے) کے مصداق جھیل کا پانی انہی پتھروں کی گہرائی میں اپنا راستہ نکالنے میں کامیاب ہوا ہے۔ جھیل میں پانی سبز مائل نیلا رنگ لیے ہوئے ہے جبکہ نیچے آبشار تک پہنچتے پہنچتے یہ بالکل سفید رنگ لے لیتا ہے اور شاید اسی وجہ سے اسے سپین خوڑ (سفید یا صاف و شفاف پانی کی ندی) کہتے ہیں۔

گاؤں لدو واپسی کے وقت جھیل کا خارج شدہ پانی ایک گنگناتی آبشار کی شکل میں بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی سو یا 120 فٹ اوپر سے نیچے گرتے ہوئے پانی کو دیکھ کر سیاحوں کے دل میں گدگدی سی ہونے لگتی ہے۔ اس کی پھوار دور دور تک ہلکے ہلکے مینہ کی شکل میں اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ آبشار کے قریب تصویر کھینچنے کی غرض سے کھڑے سیاحوں کے کپڑے پلک جھپک میں گیلے ہوجاتے ہیں اور کیمرہ کے لینس کو ہر دوسری تیسری تصویر کے بعد صاف کرنا پڑتا ہے۔ مذکورہ آبشار کو جھیل کی مناسبت سے سپین خوڑ آبشار پکارا جاتا ہے۔جھیل کی سیر کرنے والے سیاحوں کو کالام یا اتروڑ سے باآسانی گائیڈز مل سکتے ہیں۔ ان کی کوئی مخصوص فیس نہیں۔ عموماً دو ہزار سے لے کر پانچ ہزار روپے تک یومیہ لیتے ہیں۔

گائیڈز کی دل لبھانے والی بات یہ ہے کہ وہ اتنے کو آپریٹو ہوتے ہیں کہ محض دو تین گھنٹوں میں ان پر فیملی ممبر ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ وہ نہ صرف سیاحوں کی رہنمائی کرتے ہیں بلکہ انہیں دشوار گزار راستوں سے بچوں کی طرح ہاتھ پکڑ کر گزارتے بھی ہیں۔ یہ گائیڈز سیاحوں کے ہمراہ ہلکا پھلکا سامان اپنے کاندھوں پر بھی لادتے ہیں۔ ان بھلے مانسوں کی بس ایک ہی خواہش ہے کہ حکومت بحرین تا اتروڑ سڑک (لگ بھگ 51 کلومیٹر) تعمیر کروائے۔ قریباً تمام گائیڈز کی کہانی ایک جیسی ہی ہے۔ مئی سے لے کر اگست کے آخر تک یعنی چار ماہ وہ سیاحوں کی راہ تکتے ہیں اور باقی کے مہینے ملک کے گرم علاقوں میں جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنے کی خاطر سخت محنت مزدوری کرتے ہیں۔

امجد علی سحاب


Post a Comment

0 Comments