All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سول ملٹری روابط ’’ڈان‘‘ کی نظر میں

انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ لاہور کا 6 اکتوبر کا شمارہ میرے سامنے کھلا ہوا ہے۔ اس میں صفحہ اول پر ایک عجیب و غریب سٹوری شائع کی گئی ہے۔۔۔ لیکن جب آپ یہ کالم پڑھیں گے تو یہ موضوع میڈیا پر بہت رگیدا جا چکا ہوگا۔ تاہم مناسب ہوگا پہلے اس کا ترجمہ دیکھ لیا جائے۔

اسلام آباد: سویلین حکومت نے پاکستان کی فوجی قیادت کو ایک ایسی واشگاف اور بنی بنائی (Orchestrated) وارننگ دی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی تنہائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اسی وارننگ میں حکومت کی طرف سے بہت سے کلیدی اقدامات اٹھانے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔

سوموار (3 اکتوبر 2016ء) کو جو آل پارٹی کانفرنس بلائی گئی تھی اس میں کم از کم دو ایسے ایکشن لینے پر رضامندی ظاہر کی گئی جن کو پبلک نہیں کیا گیا۔۔۔ پہلا اقدام یہ تھا کہ جنرل رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی، قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ کو اپنے ہمراہ لیں اور چاروں صوبوں کا دورہ کریں اور وہاں کی صوبائی ایپکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈروں کو ایک پیغام پہنچائیں ۔۔۔۔ وہ پیغام یہ ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کہ جن پر پابندی لگ چکی ہو اور جن کے خلاف سویلین اداروں کی طرف سے ایکشن لینا حدود باہر کر دیا گیا ہو، ان کے خلاف فوج کی طرف سے فراہم کردہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کوئی مداخلت نہ کی جائے۔
اور اس پیغام کی دوسری شق یہ ہے کہ پٹھانکوٹ سانحے کی تحقیقات کی از سر نو تحقیق کی جائے اور ساتھ ہی ان ممبئی حملوں کے ٹرائل بھی دوبارہ شروع کئے جائیں جو راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
یہ دونوں فیصلے اس غیر معمول زبانی گفتگو کے بعد لئے گئے ہیں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے مابین ہوئی۔ یہ فیصلے مسلم لیگ نون کی حکومت کی ایک بالکل نئی سوچ اور اس کے اہم مفادات (ہائی سٹیکس) کے غماز بھی ہیں۔

اس ہفتے جو بڑی اہم (Crucial) ملاقاتیں ہوئیں ان کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔ یہ تفصیلات اُن حضرات نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کو بتائیں جو وہاں موقع پر موجود تھے۔ تاہم ان سب نے اپنا نام ریکارڈ پر لانے سے منع کر دیا اور جن اشخاص کے بارے میں یہ باتیں اور خبریں منسوب کی گئیں انہوں نے بھی ان کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا:

سیکرٹری خارجہ کی پریذنٹیشن
منگل وار کو جو آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی اس میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے وزیراعظم کے دفتر میں سول اور ملٹری آفیسرز کے ایک چھوٹے سے گروپ کو ایک الگ اور خصوصی پریذنٹیشن دی۔ اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم نے کی۔ اس میں وفاقی اور صوبائی کابینہ کے سینئر افسروں نے شرکت کی۔ اور فوج کی طرف سے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے وفد کی قیادت کی۔

سیکرٹری خارجہ نے پاکستان کی طرف سے سفارتی سطح پر کی جانے والی مساعی کا اجمالاً ذکر کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کا مسئلہ درپیش ہو رہا ہے اور حکومت اس کے جواب میں جو کچھ بتا رہی ہے اس کو بڑے بڑے ممالک زیادہ درخوراعتناء نہیں گردان رہے۔۔۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو روابط زیادہ بگڑ چکے ہیں اور خدشہ ہے کہ مزید بگڑیں گے کیونکہ امریکہ مطالبہ کررہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن لیا جائے ۔ اور بھارت کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر چودھری نے کہا کہ پٹھانکوٹ کی تحقیقات ابھی پایہ ء تکمیل کو نہیں پہنچیں اور نہ ہی جیشِ محمد کے خلاف کوئی ایکشن ابھی تک لیا گیا ہے۔ اور انڈیا کے یہی دو بڑے مطالبات ہیں۔

اس کے بعد کمرے کی فضا پر اس وقت مکمل سکوت چھا گیا جب مسٹر چودھری نے یہ کہا کہ اگرچہ چین، پاکستان کو سپورٹ کرتا ہے لیکن چین بھی یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو اپنا راستہ تبدیل کرنے کو ترجیح دینی چاہیے خاص طور پر ایسے پس منظر میں کہ جب چین نے جیشِ محمد کے لیڈر پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیاں لگانے کی قرارداد کو ملتوی کروا دیا ہے۔ چین بارہا یہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان اپنے روئیے میں تبدیلی کی آپشن پر غور کیوں نہیں کرتا؟

غیر معمولی نوک جھونک
سیکرٹری خارجہ کے ان غیر متوقع اور منہ پھٹ (Blunt) استخراجات (Conclusions) نے ڈی جی آئی ایس آئی اور بہت سے سویلین افسروں کے مابین ایک حیرت انگیز اور ایک بہت بڑی تبدیلی ء فکر و نظر کو ہوا دے دی۔سیکرٹری خارجہ کے استخراجات کا جواب دیتے ہوئے جنرل اختر نے پوچھا کہ پاکستان کو تنہائی کی طرف لڑھکنے سے بچانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے جائیں؟ مسٹر چودھری کا جواب بڑا زور دار بھی تھا اور دوٹوک بھی۔ انہوں نے کہا: ’’بین الاقوامی برادری کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ مسعود اظہر اور جیشِ محمدکے خلاف ایکشن لیا جائے اور حافظ سعید اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی!‘‘۔

یہ سن کر جنرل اختر نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس کے خیال کے مطابق جو بھی قصوروار ہو اس کو گرفتار کر لے۔ تاہم جب جنرل اختر یہ بات کہہ رہے تھے تو معلوم نہ ہو سکا کہ ان کا اشارہ کس طرف تھا۔ کیا وہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے جن کے گروپوں پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں یا وہ ایک عمومی بات کر رہے تھے کہ حکومت جس کو مجرم سمجھتی ہے، اس کو گرفتار کرلے؟۔۔۔ اس موقع پر غیر متوقع طور پر اور اچانک وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی طرف سے ایک بے باکانہ (Bold) مداخلت نے تمام حاضرین کو مزید ششدر کرکے رکھ دیا!

چھوٹے شریف نے جنرل اختر کو مخاطب ہوتے ہوئے شکائت کی کہ جب بھی سویلین حکام کسی گروپ کے خلاف ایکشن لیتے ہیں، سیکیورٹی کے ادارے (فوج) پردے کے پیچھے کارروائی شروع کر دیتے ہیں کہ گرفتار شدگان کو کیسے رہا کروایا جائے۔ یہ سننا تھا کہ تمام ماحول پر ایک دم وہی گہرا سکوت چھا گیا جو بالعموم اس قسم کی غیر معمولی اور غیر متوقع نوک جھونک کے بعد دیکھنے میں آتا ہے۔ اس صورت حال میں رفعِ کشیدگی کے لئے خود وزیراعظم آگے بڑھے اور جنرل اختر سے براہِ راست مخاطب ہوئے اور کہا کہ ماضی میں جن پالیسیوں پر عمل کیا جاتا تھا وہ ریاست کی اجتماعی ذمہ داری تھی ۔ لیکن موجودہ واقعات و حالات کے تناظر میں ڈی جی آئی ایس آئی کو الزام نہیں دیا جا رہا۔

وزیراعظم کی حکمت عملی
سوموار کو جو یہ ناقابلِ یقین واقعات پیش آئے ان کو بچشمِ خود دیکھنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ سیکرٹری خارجہ کی یہ پریذینٹیشن اور وزیراعلیٰ شہبازشریف کی یہ مداخلتِ بے جا خود وزیراعظم کی ایماء پر ہوئی تاکہ فوج کو ایکشن لینے پر اکسایا جائے۔ اور اس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو بین الصوبائی دوروں پر بھیجا جائے۔

لیکن جن لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی تھی انہوں نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے ساتھ اپنے خیالات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سویلین حکام کے مابین اس آویزش نے زیادہ تلخ مزاجی اور تندخوئی کا روپ نہ دھارا۔ اس سے پہلے اسی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی، جنرل اختر نے کہا کہ نہ صرف فوج کی پالیسی یہ ہے کہ عسکریت پسند گروپوں میں کوئی امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ بلکہ فوج اس پالیسی پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں بھی پوری طرح کوشاں (Comitted) ہے۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے بہت سے گروپوں کے بارے میں ایکشن لینے کی ٹائمنگ پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایکشن لیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ ایکشن بھارتی دباؤ کی وجہ سے تو نہیں لیا جا رہا یا ایسا تو نہیں کہ ہم کشمیریوں کو تنہا چھوڑ رہے ہیں۔

بہت سے حکومتی اہلکاروں کا کہنا یہ ہے کہ سوموار والا یہ ’’آمنا سامنا‘‘ وزیراعظم کی طرف سے کھیلا جانے والا ایک بڑا جواء ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان پر بڑھتے ہوئے سفارتی دباؤ کو ٹالنے کی کوشش کی جائے۔ یہی اہلکار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک اور الگ ملاقات میں وزیراعظم نے آرمی چیف کو زیادہ زور دار اور زیادہ توانا الفاظ میں کہا ہے کہ اگر موجودہ پالیسی میں ردوبدل نہ کیا گیا تو پاکستان کو مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تا ہم اس بارے میں سرکاری اہلکاروں کی رائے منقسم ہے کہ وزیراعظم کا یہ جواء کامیاب بھی ہو گا یا نہیں۔ ایک اہلکار نے ڈی جی آئی ایس آئی کے تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’اسی تبصرے کو تو سننے کے لئے ہم نے ساری زندگی انتظار کیا ہے ۔دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے!‘‘۔۔۔ ایک اور حکومتی اہلکار نے یہ تبصرہ بھی کیا: ’’نومبر تک انتظار کرو کہ کیا ایکشن لیا جاتا ہے۔۔۔ تب تک بہت سی باتوں کا فیصلہ ہو جائے گا!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے ڈان کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی اس چار کالمی سٹوری کا ترجمہ پڑھا۔ بہتر ہوگا اگر اصل سٹوری بھی پڑھ لیں تاکہ تفہیمِ مطالب میں کوئی ابہام نہ رہے۔ ویسے میں نے اپنی سی کوشش کی ہے کہ ترجمہ میں متن کی روح کو مجروح نہ ہونے دوں۔ اس سٹوری کے مصنف مسٹر سائرل المیڈا (Cyril Almeida) ہیں جو ’’ڈان‘‘ کے سٹاف پر ہیں۔ ان کے کالم اسی اخبار میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور اخبار کی انتظامیہ کی اوور آل پالیسیوں کے غماز ہوتے ہیں۔ یہ سٹوری پڑھ کر دو تین سوال میرے ذہن میں ابھرتے ہیں۔مثلاً:

اگر کسی ایک یا ایک سے زیادہ چشم دید حضرات نے سائرل صاحب کو اس سٹوری کی روئیداد سنائی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا نام شائع نہ کیا جائے تو اس خبر کو صفحہ اول پر لگانے کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔دوسرے یہ کہ اوڑی پر حملہ اور اس پر بھارتی وزیراعظم کا ردعمل تو ان ایام میں پہلے ہی اخباری خبروں اور تبصروں کا موضوع بنا ہوا ہے! ایسے میں پاکستانی قوم کو بھارت کے خلاف اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے نہ کہ اختلافِ رائے کی۔ ہم جانتے ہیں ایک طویل عرصے سے سول اور ملٹری روابط میں کشیدگی کا بیرومیٹر مختلف ریڈنگ ظاہر کرتا رہتا ہے۔ لیکن آج ایسے موقع پر کہ آرمی کی چوٹی کی قیادت کو ایک آدھ ماہ بعد تبدیل ہو جانا ہے، آئی ایس آئی اور سویلین قیادت کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کوئی ایسی مستحسن کوشش شمار نہیں ہوگی۔

اور تیسرے ڈان اخبار کا ایک بڑا نام ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا میں بھی سب سے زیادہ پڑھا جانا والا پاکستانی اخبار یہی ہے۔ ایسے میں یہ فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ اخبار کے ایک سینئر صحافی اور کالم نگار نے امروزہ ہنگام میں جس پاکستانی ’’سول ملٹری آویزش‘‘ کو موضوعِ سخن بنایا ہے کیا اس سے پاکستانی قارئین کی ڈھارس بندھے گی یا بھارتی قارئین کے من میں لڈو پھوٹیں گے؟

لیفٹیننٹ کرنل (ر)غلام جیلانی خان

Post a Comment

0 Comments