All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

فیس بُک انتظامیہ نے 7 فلسطینی صحافیوں کے اکاؤنٹس بغیر وجہ بند کردیئے

 فیس بُک نے گزشتہ ہفتے دو الگ الگ نیوز ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے
سات فلسطینی صحافیوں کے ذاتی اکاؤنٹس کوئی وجہ بتائے یا نوٹس دیئے بغیر بلاک کردیئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق جن فلسطینی صحافیوں کے ذاتی فیس بُک  اکاؤنٹس بند کئے گئے ہیں ان کا تعلق شہاب نیوز ایجنسی اور قدس نیوز نیٹ ورک سے ہے۔ فیس بُک کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غلطی سے ہوا ہے اور ان میں سے 6 صحافیوں کے اکاؤنٹس بحال کردیئے گئے ہیں۔ ساتویں فلسطینی صحافی کا فیس بُک اکاؤنٹ اب تک بحال نہیں کیا گیا ہے۔

اس کے برخلاف فلسطینی صحافیوں کا مؤقف ہے کہ ایسا کسی غلطی کے باعث نہیں ہوا بلکہ یہ فیس بُک کے اعلی عہدیداران اور اسرائیلی حکام کے مابین تل ابیب میں ہونے والی حالیہ ملاقات کا نتیجہ ہے۔ اس ملاقات میں فیس بُک نے اسرائیلی حکومت کے تعاون سے ایسا تمام مواد اس سوشل میڈیا سائٹ سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا جو اسرائیل مخالف ہو یا اسرائیل میں تشدد کا باعث بن سکتا ہو۔ اس اعلان پر انٹرنیٹ ناقدین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مذکورہ ’’تعاون‘‘ کا اصل ہدف وہ تمام لوگ بالخصوص فلسطینی اور عرب افراد ہوں گے جو سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ سات فلسطینی صحافیوں کے فیس بُک اکاؤنٹس لاک کرنے کی ’’غلطی‘‘ عملاً فیس بُک کی اسی پالیسی کو ظاہر کرتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اسرائیل میں گزشتہ اکتوبر (2015) سے تشدد کی ایک نئی لہر پھیل رہی ہے جس میں اب تک سینکڑوں افراد قتل کئے جاچکے ہیں۔ لیکن ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق، اسرائیلی اعداد و شمار جھوٹ کا پلندہ ہیں کیونکہ اکتوبر 2015 سے جاری ’’الیکٹرونک انتفادہ‘‘ کے دوران اسرائیل میں اب تک 230 فلسطینی، 34 اسرائیلی، دو ا مریکی، ایک اردنی، ایک اریٹریائی اور ایک سوڈانی قتل ہوچکے ہیں۔ خود اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ ’’تشدد/ بغاوت‘‘ پر اُکسانے والا مواد فیس بُک پر شیئر کرانے کی پاداش میں گزشتہ نومبر سے اب تک 100 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے جنہیں نظر بندی، کئی ماہ تک قیدِ بامشقت اور ہزاروں امریکی ڈالر کے مساوی جرمانوں جیسی مختلف سزائیں دی جاچکی ہیں۔

فیس بُک کی اسرائیل نوازی پر نکتہ چینی کرنے کے بعد الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں (فلسطینی صحافیوں کا حوالہ دیتے ہوئے) یہ بھی لکھا ہے کہ شہاب نیوز ایجنسی کے اکاؤنٹس ایک سال میں چار بار بند کئے گئے ہیں جن میں سے دو مرتبہ کی بندش عارضی تھی جبکہ دو مرتبہ یہ فیس بُک اکاؤنٹس مستقل بنیادوں پر ختم کردیئے گئے تھے جنہیں نئے سرے سے بنانا پڑا تھا۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی صحافیوں کے اکاؤنٹس بند کرنے کا معاملہ کسی غلطی کا نتیجہ رہا ہو یا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو، ہر صورت میں اب انٹرنیٹ پر اظہارِ رائے کی آزادی محدود اور چند مخصوص ممالک کی پسند و ناپسند کے تابع ہونے جارہی ہے۔

Post a Comment

0 Comments