All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں لاپتہ افراد کا المیہ : وہ افراد جو کھو گئے

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اندورنی اور بیرونی
دباؤ کے پیش نظر حکومت نے سنہ 2011 میں اس کے حل کے لیے ایک کمیشن جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کیا تھا۔ اس کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک 1,800 سے زیادہ افراد کے مقدمات نمٹا دیے ہیں۔ ابتدائی طور پر چھ ماہ کے لیے قائم اس کمیشن نے اپنا کام یکم مارچ سنہ 2011 کو شروع کیا تھا۔
جسٹس جاوید اقبال کو جو کہ اس وقت ریٹائرمنٹ کے قریب تھے کو اس کی سربراہی کی پیشکش کی گئی جو انھوں نے قبول کر لی۔

جبری گمشدگیوں کے کیس اور پیش رفت
حکومت اس کمیشن کی مدت میں وقتاً فوقتاً چھ ماہ کا اضافہ کرتے رہی لیکن اب اس کی مدت آئندہ برس ستمبر تک بڑھا دی گئی ہے۔ کمیشن کو یہ مینڈیٹ دیا گیا کہ وہ حبری طور پر لاپتہ افراد کا اتا پتہ معلوم کرے اور اس مسئلے سے متعلق اندرون اور بیرون ملک معاملات سے نمٹے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ان کے لیے کوئی ہدف مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر غوث محمد اور سابق سینیئر پولیس اہلکار محمد شریف ورک اس کے ممبر ہیں۔
کمیشن کو اس سال مارچ تک 3,178 کیس موصول ہوئے۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 1,824 مقدمات حل کر لیے گئے ہیں اور 1,354 مقدمات اب بھی حل طلب ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق جبری طور پر لاپتہ افراد کے مقدمات کی تعداد اکثر لوگ کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں جو کہ درست نہیں ہوتیں۔ تاہم اب خفیہ ایجنسیاں زیادہ سے زیادہ افراد کو حراست میں لیے جانے کے بعد عدالتوں میں پیش کر رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق حالات میں بہتری آئی ہے لیکن مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوا ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک دہشت گردی کا مسئلہ اس خطے میں مکمل طور پر حل نہیں ہوتا ہے۔

ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


Post a Comment

0 Comments