All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ابن ِبطوطہ دنیا کے عظیم سیاح کی داستان

عالم گیر شہرت کے حامل مسلمان سیاح ابن ِ بطوطہ نے 28 سال کی مدت میں 75ہزار میل کا سفر کیا، جن ملکوں کی انہوں نے سیاحت کی، کہاجاتا ہے کہ اُن میں موجودہ پاکستان اور ہندوستان سمیت ایران، شام، تیونس، جزائر شرق الہند، روس، مصر، دمشق، ترکی، افریقا، فلسطین، یروشلم اور چین شامل تھے۔ان تمام سفروں کی روداد انہوں نے ایک کتاب ’عجائب الاسفارنی غرائب الجبار‘ میں درج کی ہے، جسے عالمی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ یہ کتاب عربی ادب میں اوّلین سفرنامے کے طور پر بھی معروف ہے۔ ابن ِبطوطہ 1304ء میں مراکش کے ایک شہر طنجہ کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے بارے میں معلومات زیادہ تر اُن کی اپنی تحریروں میں دستیاب ہیں، جو انہوں نے اپنے سفروں سے متعلق لکھی ہیں۔ طنجہ ہی میںابن ِبطوطہ نے اسلامی فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ 
اُن کے والد اور خاندان کے دیگر افراد قاضی کے عہدوں پر کام کرتے رہے تھے اور علم فقہ کے شعبے میں اُن کے خاندان کے علمی کمال کی بڑی دھوم تھیں، لیکن فقہ کے میدان میں مہارت حاصل کرنے کے باوجود ابن ِبطوطہ اس شعبے میں کیریئر بنانے میں چنداں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نوجوانی ہی میں اس شعبے کی طرف راجع ہوئے، جسے انہوں نے آنے والے برسوں میں اپنی پہچان بنانا تھا اور جس میں اُن کے گراں قدر کام نے انہیں ہمیشہ کے لیے ایک افضل رتبہ عطا کیا۔ اکیس برس کی عمر میں وہ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ اپنے شہر سے باہر ان کا پہلا سفر تھا۔ یہ سفر جو سولہ مہینوں میں مکمل ہونا تھا، اگلے چوبیس برسوں پر محیط ہوگیا، جس دوران میں شوق سیاحت نے انہیں کہیں ایک جگہ قیام کرنے سے مانع رکھا۔ اُن کے لیے منزل اہم نہیں تھی بلکہ سفر جاری رکھنے کا ایک بہانہ تھا۔ وہ سفر کے اسیر تھے۔ یہی شوق انہیں دنیا بھر میں مختلف خطوں میں لیے پھرتا رہا۔ زیادہ تر انہوں نے زمینی راستوں کو سفر کے لیے منتخب کیا اور لوٹ مار سے بچنے کے لیے قافلوں میں شامل ہوجاتے ،جو انہیں ہر شعبے کے ماہرین سے ملنے اور ان کے ساتھ سفر کرنے کے مواقع فراہم کرتا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ زیادہ تر سفر انہوں نے تنہا طے کیے، نہ کسی کارواں میں شامل ہوئے، نہ کسی ساتھی کی صحبت کا سہارا لیا۔ ساتھ رہی تو بس ایک خواہش، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید ہوتی گئی اور وہ خواہش اجنبی سرزمینوں اور ثقافتوں کی سیر اور اجنبی آبادیوں اور انسانوں سے ملنے کی تھی۔

اس خواہش نے ابن ِ بطوطہ کو اس کے گھر بار، رشتہ داروں اور دوستوں سے دور کردیا۔ گھر اور عورت کا سکھ، دوستوں کی صحبت اور جانی پہچانی راہوں کا اطمینان انہوں نے تج دیا۔ ان سفروں میں انہیں بھوک پیاس سے نڈھا ل ہوکر پیدل سفر کی صعوبت بھی برداشت کرنی پڑی۔ کئی بار وہ فوجوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، لٹیروں کے حملوں کا شکار بنے، باربار لوٹ لیے گئے، ایک سے زائد مرتبہ مرتے مرتے بچے اور متعدد بار راستہ بھٹک کر نئی منزلوں کی جانب رواں ہوئے۔ اپنے سفروں کا آغاز ابن ِبطوطہ نے مشرق وسطی کے ممالک سے کیا، پھر وہ بحیرہ احمر سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے ،جہاں انہوں نے حج کا فریضہ ادا کیا۔ طویل صحرائی سفر کے بعد وہ عراق اور ایران پہنچے۔ 1330ء میں وہ پھر سے بحیرہ احمر کے ذریعے عدن اور تنزانیہ گئے۔ ابن ِبطوطہ نے اپنے سفروں کے دوران چار مرتبہ حج کیے۔ 1332ء میں وہ ہندوستان آئے۔ یہاں ہندوستان کے علم دوست بادشاہ محمد بن تغلق کی حکومت تھی۔ اس کے دربار میں اُن کی شہرت اُن کی آمد سے پہلے پہنچ چکی تھی۔ 

بادشاہ نے اُن کی خوب آؤ بھگت کی اور انہیں قاضی کے عہدے پر متعین کیا۔ یہاں وہ سولہ برس رہے۔ اس دربار میں علما، صوفیا اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جنہیں سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ ان سولہ برسوں میں ابن ِبطوطہ کو سرکاری دوروں میں برصغیر کے متعدد علاقوں کی سیر کا موقع ملا، جس کا احوال انہوں نے تفصیل سے درج کیا ہے،لیکن وہ خود لکھتے ہیں کہ وہ اس ملک میں بادشاہ کے عتاب کے خوف سے قید ہوکر رہ گئے تھے کہ نہ نوکری چھوڑ کر جا سکتے تھے، نہ خود کو محض اس خطے تک محدود کرنے ہی پر مطمئن ہوتے تھے۔ ہندوستان سے باہر نکلنے کا موقع انہیں 1347ء میں میسر آیا جب وہ سرکاری وفد کے ساتھ چین گئے۔ اس سفر میں وہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں لوٹ لیے گئے اور شدید زخمی ہوئے، لیکن پھر سے اپنے قافلے سے آن ملے۔ آئندہ برسوں میں ابن ِبطوطہ مالدیپ اور سری لنکا بھی گئے۔ مالدیپ میں تو وہ قاضی اعلیٰ کے طورپر بھی کام کرتے رہے۔ سری لنکا سے روانہ ہوتے ہوئے بحری قزاقوں کے حملے کے نتیجے میں وہ ڈوبتے ڈوبتے بچے۔ اپنے سفروں میں ابن ِبطوطہ مختلف ثقافتوں اور اُن کے رسوم و رواج کے بیان پر خاص توجہ صرف کرتے ہیں۔ انہیں وہ ایسی تفصیلات کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جن میں تجسس کے ساتھ ایک عالمانہ تحقیق بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔

وہ جہاں کہیں کوئی معمول سے ہٹ اور نیا رویہ یا رواج دیکھتے، اس کا قریب سے مشاہدہ کرتے اور پھر اس کی تفصیلات لکھ لیتے۔ یہ رسوم و رواج انہیں حظ بھی دیتے اور حیرتوں کے نئے دَر اُن پر وَا کرتے۔ ایک موقع پر انہوں نے ہندوؤں میں ستی کی رسم کا مشاہدہ کیا اور اسے تفصیل سے لکھا۔ وہ اس کی ہیبت سے اس قدر دہل گئے کہ لکھتے ہیں کہ جلائی جانے والے عورت کے کرب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ وہ اس بہیمانہ رسم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ترکوں اور مغلوں میں عورتوں کی غیر معمولی قدر افزائی پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ مغربی افریقا میں انہوں نے آدم خور قبیلوں کی بودوباش کا مشاہدہ کیا۔ اس سے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’حبشی آدم خوروں کا ایک گروہ سلطان سلیمان سے ملنے آیا۔ سلطان کی طرف سے انہیں ایک حبشی کنیز تحفے میں دی گئی۔ انہو ں نے اسے مار کر کھا لیا اور اس کا خون اپنے چہروں پر لگا کر اظہار تشکر کے لیے سلطان سے ملنے آئے۔کسی نے مجھے بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے گوشت کا سب سے مزیدار حصہ اُن کی ہتھیلیوں اور پاؤں کا گوشت ہوتا ہے۔‘‘ 1349ء میں ابن ِبطوطہ چوبیس سالہ سیاحت کے بعد اپنے آبائی وطن مراکش پہنچے، جہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہو ا کہ پندرہ برس پہلے اُن کا باپ اور چند ماہ پہلے اُن کی ماں فوت ہوچکی تھی۔ چند ماہ بعد ہی وہ پھر سے سفر پر روانہ ہوئے۔ 

1354ء میں وہ پھر سے مراکش لوٹے تو اس بار یہیں مستقل اقامت اختیار کرنے کے ارادہ کیا۔ مراکش کے حکمران ابو انان فارس کی فرمائش پر انہوں نے اپنے سفروں کا احوال قلم بند کیا۔ اس کتاب کا پورا نام ’تحفہ النظار فی غرائب الامصار و عجائب الاسفار‘ہے ،تاہم اسے ’الرحلۃ‘ کے مختصر سے بھی پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب ’سفر‘ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن ِبطوطہ کو سفر کے دوران نوٹس لینے کی عادت نہیں تھی۔ انہوں نے سفروں کے اختتام پر اپنی یادداشت کی بنیاد پر اُن کی روداد لکھی یا پھر پہلے سے موجود مختلف سیاحوں کے سفرناموں سے مدد لی۔ چند ایک مورخین کا یہ کہنا بھی ہے کہ جن سفروں کا ابن ِبطوطہ نے اپنے سفرنامے میں ذکر کیا ہے اور جن عجائبات کا بیان ہمیں اُن کے سفرنامے میں پڑھنے کو ملتا ہے، وہ سبھی سوفیصد درست نہیں ۔ بعض تو یہ بات بھی شک کی نظر سے پڑھتے ہیں کہ ابن ِ بطوطہ کبھی چین گئے تھے۔ اسی طرح انتولیا، بلخ وغیرہ کئی سفر ایسے ہیں، جن کے بارے میں اس شک کا اظہار کیا جا تا ہے کہ انہیں مختلف سیاحوں کے سفرناموں کی بنیاد پر تحریر کیا گیا۔ ابن ِبطوطہ کی مسلم دنیا سے باہر شہرت کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا جب جرمن سیاح الرچ جیسپر سیٹزن نے مشرق وسطی میں چند مسودات حاصل کیے۔

انہی مسودات میں 94 صفحات پر مشتمل ایک مسودہ ابن ِبطوطہ کی کتاب کے خلاصے کی صورت میں موجود تھا۔ اس خلاصے کے جرمن زبان میں ترجمے کے بعد ابن ِبطوطہ کے مسودات کی تلاش اور اُن کے تراجم کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1355ء میں ابن ِبطوطہ نے اپنا سفر نامہ مکمل کیا اور مستقل طورپر دمشق میں اپنے آبائی گاؤں میں اقامت اختیار کی۔ ابن ِبطوطہ کی اس کے بعد کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔ انہیں مراکش میں قاضی کے عہدے پر تعینات کردیا گیا تھا۔ 1369ء میں اسی شہر میںاُن کی وفات ہوئی۔ 

محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
 

Post a Comment

0 Comments