All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

دہشت گردی : اسباب و سدباب - حافظ محمد سعید

گلشن اقبا ل پارک،علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ
نے پوری قوم کو رنجیدہ اور سوگوار کردیا ہے۔یہ المناک واقعہ اتوار کے روز شام سات بجے کے قریب پارک کے اس مین داخلی دروازے کے اندر پیش آ،یا جہاں خواتین اور بچوں کا سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔دھماکہ میں 74سے زائد افراد جاں بحق 350کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں ۔ جاں بحق ہونے والوں میں 29 معصوم بچے اور 24خواتین ہیں۔ دھماکے کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کا نشانہ بننے والوں کے اعضاء دور دور تک بکھر گئے،جھولوں  درختوں اور بجلی کی تاروں پر لٹکتے نظر آئے۔

 پبلک مقام پر دہشت گردی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے،یعنی زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کر کے لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرنا۔ بلاشبہ دھما کہ سے جانی نقصان تو بہت ہوا ہے لیکن دشمن پاکستانی عوام میں خوف وہراس پیداکرنے میں ناکام رہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی دھماکے کی خبر عام ہوئی  لوگ ڈرکر گھروں میں چھپنے کی بجائے زخمیوں کو خون دینے ہسپتالوں میں پہنچ گئے، یہاں تک کہ خون دینے والوں کی لائنیں لگ گئیں۔ ہسپتالوں میں جو زخمی مسیحی بچے ،خواتین اورمرد داخل تھے، مسلمان نوجوانوں نے ان کو خون دے کر ثابت کیا کہ اقلیتوں کی جانیں بھی اتنی ہی قیمتی ہیں ،جتنی ایک عام پاکستانی شہری کی۔
حالیہ المناک سانحہ پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے حملے سے جاں بحق ہونے والوں کے ہر قطرہِِ خون کا انتقام لیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سفاک درندوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ دہشت گردوں کا تمام صوبوں میں پیچھا کیا جائے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میںآپریشن کا فیصلہ کیا گیا ،جبکہ حالیہ سانحہ کی تحقیقا ت کے لئے حسب سابق جوائنٹ تحقیقاتی کمیٹی بھی بن چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہر ممکن اقدامات ضروری ہیں،لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجوددہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششیں بار آور کیوں نہیں ہورہیں؟ 

  وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی سمت درست نہیں۔ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور سائے کے تعاقب میں ہیں،جبکہ منزل پر پہنچنے اور مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لئے جذبات کی بجائے حقائق کا ادراک ضروری ہے۔سچی بات ہے کہ گلشن اقبال لاہور میں 74افراد کی اموات پرپورا ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے ،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں، جس کا سامنا ہماری قوم کو کرنا پڑا ہو ،بلکہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کی بہت سی سنگین وارداتیں ہو چکی ہیں۔ تاریخ کی ایک بدترین دہشت گردی آج سے 69سال پہلے ہوئی تھی، جس میں 15لاکھ پاکستانی بڑے ہی بہیمانہ اور ظالمانہ طریقے سے شہید کر دیئے گئے تھے۔

 پاکستانیوں کی لاشوں کے اس قدر ڈھیر لگ گئے کہ دریا سرخ ہوگئے اور فضا متعفن ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ دہشت گردوں نے حاملہ ماؤں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو نکالا،نیزوں پر اچھا لا اورمیخوں میں پرو کر مساجد کے منبر ومحراب میں گاڑ کر نیچے لکھ دیا تھا۔   ’’یہ ہے پاکستان‘‘۔ تاریخ کی سب سے بڑی اس دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈجواہر لال نہرو،گاندھی اور کانگریس کے دیگر رہنما تھے ۔ انہوں نے پاکستان مخالف بیانات دیئے ،پھر دنوں ،مہینوں میں اپنے بیانات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 15لاکھ مسلمانوں کو شہید کر کے ثابت کر دکھایا کہ وہ پاکستان دشمنی میں شرافت اورانسانیت کی تمام حدیں پامال کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک بھارت میں 35ہزار سے زائد مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں۔یہ فسادات ہمیشہ بھارتی حکمرانوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں جن میں متعصب اور جنونی ہندوؤں کے علاوہ فوج اور پولیس بھی حصہ لیتی ہے،اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ فسادات نہیں ،بلکہ دہشت گردی کے واقعات ہیں۔

دہشت گردی کا ایک اور بدترین واقعہ 1971ء میں پیش آیا تھا،جس میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی شہید کر دیئے گئے تھے۔ آج ہماری نوجوان نسل کو معلوم نہیں کہ دہشت گردوں کانشانہ بننے والوں میں مولوی فریداحمد بھی شامل تھے۔ پاکستان کا پرچم لہرانے کی پاداش میں مولوی فرید احمد کا جب ایک ہاتھ کاٹ دیاگیا تو انہوں نے دوسرے ہاتھ میں پرچم تھام لیا،جب دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا تو زبان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے، حتیٰ کہ بے رحم دہشت گردوں نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔ سلہٹ کے رہنے والے جمال احمد سفید ریش بزرگ اور محب وطن شخص تھے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر منعم خان کی کابینہ میں وزیر بھی رہ چکے تھے۔ پاکستان کے ساتھ محبت کی پاداش میں جمال احمد کی ٹانگوں کے ساتھ رسے باندھے گئے،رسوں کو دو جیپوں کے ساتھ باندھا گیا اورجیپوں کومخالف سمت میں چلا دیا گیا جس سے جمال احمد کا جسم دوحصوں میں چر گیا۔

آہ،افسوس صد افسوس! آج ہم دہشت گردی کے یہ تمام ا لمناک سانحات بھول چکے اور دشمن کی شناخت بھی کھو بیٹھے ہیں،جس کا نتیجہ ہے کہ غلطی پر غلطی کر ر ہے اور منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گذشتہ سال ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر سینہ تان کر اور خم ٹھونک کر کہہ چکے ہیں۔۔۔ہاں یہ ہم ہیں جنہوں نے یہ سب کچھ کیا۔۔۔ہم ہیں جنہوں نے دہشت گردی کو فروغ دیا۔ ہم ہیں جنہوں نے پاکستان توڑااور آئندہ بھی ہم یہ سب کچھ کریں گے۔

18 فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے المناک سانحہ کو یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جب آناََ فاناََ خوفناک آگ نے ٹرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ،پھر بند ڈبوں میں بچے ،بوڑھے ،جوان اور عورتیں سوکھی لکڑی کی طرح جل کر کوئلہ ہو گئے تھے۔اس حادثے کا مجرم کوئی عام آدمی نہیں ،بلکہ بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل پروہت تھا، جس نے دھماکہ خیز مواد فوجی کیمپ سے حاصل کیاتھا۔ اب بھارت کا ایک اور دہشت گرد ’’را‘‘ کا ایجنٹ ’’کل بھوشن یادیو‘‘ بلوچستان سے پکڑا گیا ہے۔ یادیو اپنے اعترافی بیان میں تعیناتی سے لے کر اب تک پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی و تخریب کاری کی تمام کاروائیوں اورمستقبل کے اپنے پاکستان دشمن منصوبوں سے بھی پردہ اٹھاچکاہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ’’را‘‘ نے نیول کمانڈر کو دہشت گردی کے لئے پاکستان کیوں بھیجا ؟جواب واضح ہے کہ ’’را‘‘ کا بڑا ٹارگٹ گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری منصوبہ ہے۔’’را‘‘ کے دہشت گرد کی گرفتاری بلاشبہ اہم کارنامہ ہے اور یہ کارنامہ انجام دینے والے پوری قوم کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ بھوشن کی گرفتاری سے ہمارے ہاتھ پکا ثبوت آگیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اداروں کے پاس بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے پہلے سے جو ثبوت ہیں، ان کا کیا بنا؟۔ مودی کا ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر علی الاعلان پاکستان توڑنے کا اعتراف ۔ کیا یہ ثبوت کافی نہیں تھا کہ اب ہم خود کو بہلانے کے لئے مز ید شواہد کی تلاش میں ہیں۔

 بھارت پاکستان کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے ،اس کا تقاضہ ہے کہ ہم سرابوں اور خوابوں سے نکلیں۔معاملہ بھارتی ہائی کمشنر کی وزارت خارجہ میں طلبی اور مراسلہ تھمانے سے آگے نکل چکا ہے ،لہٰذادہشت گردی کے اسباب کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ ہم کل بھوشن یادیو کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھائیں اور دنیا کو پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی سے آگاہ کریں۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کا یہ بیان کہ’’گرفتار ہونے والا ہمارا قابل احترام فوجی آفیسر ہے اور اس کی رہائی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ ہماری اسی خاموشی کا نتیجہ ہے۔ سوان حالات میں خاموشی ’’مصلحت ہے نہ سیاست، بلکہ مداہنت ہے اور مداہنت ہمیشہ جارحیت کا باعث بنتی ہے‘‘۔

حافظ محمد سعید

Post a Comment

0 Comments