All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

تھر بھوک اور افلاس کا صحرا

تھرایک صحرا نہیں سمندر جیسی وسعتوں کا حامل عظیم ریگستان ہے، جس کے بے شمار رنگ اور روپ ہیں، یہ اسرارورموزکی دنیا ہے، ہر موسم میں، ہر سفر میں اس کے نئے نئے رنگ وروپ کھلتے ہیں اورہر بار ہر رت میں،اس کا اک نیا انداز اس کے عاشقوں پرمنکشف ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی پورے صحرائے تھر میں زندگی نام کی کوئی چیزنظر نہیں آتی، جہاں بھی قدم رکھو مصائب میں مبتلا اور موت کے خوف سے ہمکنار فضاء آپ کو اپنے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

انسان سر تا پا گھائل ہوجاتا ہے، ہر تھری ایک الگ داستان ہے جنھیں سن کر درد مند د ل انسان اپنا درد بھلا دیتا ہے اور ایک نئے کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ سینئر صحافی سعید خاور نے تھر پر لکھی گئی اپنی تصنیف ’’پیاس اور افلاس کا صحرا   مجھے عنایت کی توسچ پوچھے جب میں اسے پڑھنے لگا تو پڑھتا ہی گیا ۔ 

بلاشبہ یہ ایک منفرد اور تحقیقی کتاب ہے ۔ جس پر میں خود کو تبٖصرہ کرنے کے قابل نہیں سمجھتا ، اس لیے اس کتاب کی کچھ چیدہ چیدہ اقتباسات کو جوڑکر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔
سعید خاور لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے کئی بارصحرائے تھرکا سفرکیا ، میں جب بھی جھڈو سے نوکوٹ پہنچا ہوں تو مجھے پیاس کا پہلا استعارہ ملا ۔ نوکوٹ سے دائیں جانب ایک خاتون پیرکی خانقاہ ہے، اس درگاہ میں سجادہ نشین ہمیشہ خاتون ہوتی ہے، اسے بچپن میں ہی سجادگی کے لیے نامزدکردیا جاتا ہے اور اپنی نامزدگی کے بعد وہ خاتون اپنے ہر محرم کے لیے غیرمحرم بن جاتی ہے، وہ جس عمر میں بھی نامزدکردی جائے وہ اپنے باپ، بھائی، چچا، ماموں، دادا، نانا، غرض ہر ایک رشتے دارکے لیے اجنبی بن جاتی ہے ، وہ پردے میں چلی جاتی ہے ۔

اسے زندگی بھرکوئی بھی مرد نہیں دیکھ سکتا، سجادہ نشین خاتون کی جانشین بھی خاتون ہوتی ہے،اس طرح وہ دونوں ساتھ رہتی ہیں ۔ کیا یہ پیاس کا استعارہ نہیں ہے۔ میں جب بھی نوکوٹ سے مٹھی کی طرف چلا ہوں مجھ پر ہمیشہ ایک وجد اور سرشاری کی کیفیت طاری رہی، شایدگھا گھرا مل جائے ، شاید ہاکڑا بہتا ہو   شاید پران رخ بدل کر مٹھی آن پہنچا ہو مگر یہاں پہنچ کر صرف اپنی آنکھ کا آنسو بہتا ہے ۔
شاید ماضی کے کسی ایوب خان نے گھاگھرا کو بیچ دیا تھا اور اب پھر ماضی قریب کے فیلڈ مارشل ایوب خان نے تین دریا بیچ دیے ۔ اب راوی ، ستلج ، بیاس کی گزرگاہیں مٹنے لگی ہیں تو گھاگھرا بہت یاد آتا ہے ،راوی اور تھرکو گھاگرا کی موت نے صحرا بنایا ۔ اب دیکھیں کتنے بھالوا، اسلام کوٹ ،چھاچھرو، عمر کوٹ اورننگر پارکر تھر اور روہی کا روپ دھارکر ریت کی چادراوڑھتے ہیں ۔

مٹھی سے اسلام کوٹ اور وہاں سے ننگر پارکر تک آپ کو ان گنت مور،کالے اور بھورے ہرن، بارہ سنگھے، تلوراوردوسرے چرند پرند نظر آئیں گے ۔ آپ کو ننگر پارکر کے قریب وہ درخت بھی مل جائے گا جس درخت کی بے رحم شاخ کو ننگر تختہ دار بنا کر رو پلوکو ہی کو پھانسی دی گئی تھی اور ننگر پارکر کے مشرقی حصے میں صحرا کی ریت میں دفن اس مسکین جہان خان کھوسوکی قبر بھی مل جائے گی جو مٹھی، اسلام کوٹ،میر پورخاص، عمرکوٹ اورچھاچھرو میں ان غریب تھریوں کی بلامعا وضہ درخواستیں لکھتا جو سرکارکے دربار میں تحریری عرض گزاری کے قابل نہیں تھے ۔

تھر لوک ادب کے علاوہ سندھ کا وہ خطہ ہے جو معدنی دولت سے مالا مال ہے لیکن اس کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی،اس لیے بھوک اور افلاس کا صحرا بن گیا ۔ مملکت کے سربراہان کی یہ پالیسی ہوتی ہے کہ وہ سرحدی علاقوں پر خاص توجہ دیتے ہیں،ان کے مسائل کو حل کرکے انھیں خوشی اور خوشحالی دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے وطن کے وفادار رہیں،لیکن بدقسمتی سے تھر ہر دور میں بھوک اور افلاس کا صحرا بنا رہا ۔ قرض پر چلنے والی سرکار بیچارے تھریوں کی کیا مدد کرسکتی ہے ۔

بیرونی امداد سے چلنے والی کچھ این جی اوز اور سیاسی و سماجی ادارے تھریوں کی پیاس ، بھوک اور افلاس دور کرنے کے لیے کیا کردار ادا کررہے ہیں ؟ اس حوالے سے سعید خاور لکھتے ہیں کہ قدرت اور حکومت نے پیاس اور افلاس کے اس صحرا سے منہ موڑ لیا ہے ۔ کچھ این جی اوز اور سیاسی و سماجی ادارے انفرادی سطح پر تھر میں زندگی کو بچانے کے لیے کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں لیکن ان میں سے کئی ایک کردار سوالیہ نشان ہے۔

میں کئی ایسی تنظیموں اور اداروں کو جانتا ہوں جو امداد کی رقم سے زیادہ روپے خبروں اور تصویروں کی نمائش پر خرچ کردیتے ہیں ۔ وہ سستی شہرت کی بیساکھیوں پرکھڑے ہوکر بلند قامت نظر آنے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔ ان کا خیال آتے ہی خون کھولنے لگتا اور میں نے من ہی من میں انھیں خوب سنائیں ۔

خشک سالی میں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے نہ تھری خوش ہیں اور نہ ہمیں ان اقدامات سے کوئی اطمینان ملا ہے ۔تھری قحط کے عالم میں ہیں اور ریاست کا کردار، سب کچھ نعرے بازی اوردکھاؤے تک محدود ہے ۔ غربت کے مارے تھری بچے اوران کے والدین بھی کھیت مزدوروں کی طرح ساہوکاروں کے پھیلائے ہوئے پرفریب اورگنجلک قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ان سیٹھوں اور ان کے گماشتوں نے وڈیروں کی طرز پر تھری خاندانوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، قالین سازسیٹھ ان خاندانوں کو قرض کی کچھ رقم فراہم کرتا ہے اور ان کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ اس عوض ان کے خاندان کے تمام افراد بشمول کم عمر بچے ان کی کھڈیوں میں کام کریں گے ۔

قرض اورلین دین کی یہ شکل تھر میں غریب خاندانوں کے مستقل استحصال کا سبب بن گئی ہے ۔ اگر کوئی خاندان کسی سیٹھ سے دس ہزار روپے قرض اٹھاتا ہے تو وہ پانچ سال بعد پچاس ہزار روپے تک جا پہنچتا ہے ۔ معصوم بچے جو اچھے کپڑے پہن کر اسکو ل کی زینت بننے چاہیئیں وہ کھڈیوں کی دھول کھا کر بیمارہوجاتے ہیں ۔ میرے تھر کے یہ معصوم دوست ( بچے ) مرنا نہیں پڑھنا چاہتے ہیں ۔ زمانے والو ، آگے بڑھو اور خدارا میرے ان کمسن کھڈی مزدور دوستوں کے لیے کچھ کرو ۔

تھر اپنے پرایوں سب کا زخم خوردہ ہے،انتخابات کے موسم میں ان کے ووٹوں کے لیے وڈیرے ، جاگیردار، تاجر، صنعتکار، سیاست دان اور سیاسی جماعتیں مارووں کے گاؤں گوٹھوں کا طواف کرکے ان کی زندگیاں بدلنے کے وعدے کرکے کامیابیاں حاصل کرتے ہیں لیکن مارووں سے کیے گئے وعدے کبھی پورے نہیں کرتے ۔ تھرکا المیہ یہی ہے کہ اس کی نمایندگی کرنے کے دعویدار خود تو خاصے متمول اور موثر ہیں لیکن ان کے مارووں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔

ان کی تقدیر بدلنے کے دعویدار اسمبلیوں تک رسائی حاصل کرنے کے بعد اگلے انتخابات تک کہیں کھوجاتے ہیں ۔ تھرکے ( مارو ) ان فصلی بیٹروں کے ہاتھوں ہمیشہ تماشہ بنتے رہتے ہیں ۔ تھر میں حالیہ خشک سالی بھوک اور بیماری کے متاثرین کے لیے عالمی اداروں سے ملنے والی خطیر رقم امداد نے ایک بار پھر بعض این جی اوز کے کارندوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے کہ یہ رقم ہضم کیسے کی جائے کہ پھرکہیں ان ہی ڈونرز سے اینٹی ڈائریا نہ طلب کرنی پڑے ۔ یہاں مجھے حکیم بوعلی سینا کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ (اتنا کھاؤ، جتنا ہضم کرسکو ) ۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر تھریوں سے محبت جتانے والو ! تمہیں کیا پتہ کہ تھرکے عوام کے درد کیا ہیں ۔

تمہیں کیا پتہ کہ لو اورگرمی میں تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلنے پر کیا گزرتی ہے ؟ غریبوں کو سکھ دینے کے جھوٹے دعویدارو، تم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے کہ تم کیا کررہے ہو،کیا تم کوکبھی اپنے بچوں کے لیے کھلونے خریدتے وقت یہ سوچتے ہو کہ بھوک اور بیماری میں مبتلا ہوکر مرنے والے تھریوں کے یتیم بچوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑے کا ٹکڑا تک میسر نہیں ہے اور تھریوں کے واحد ذریعہ معاش مویشی بھی مررہے ہیں ، ان کے لیے تم نے کبھی سوچا ہے۔

اے صاحب بہادرو! حکومت کے پاس تو پہلے ہی اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ ہے جس میں بہت سے ڈاکٹرز تنخواہیں تو سرکاری خزانے سے لیتے ہیں مگرکام مختلف این جی اوز میں کررہے ہیں مگر صاحبو تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ تھر کے باسیوں کو میسر صحت کی سہولیات جو بہت تھوڑی ہے تم وہ بھی چھین رہے ہو ۔اے منرل واٹر پینے والو پیاسے تھریوں کے بارے میں بھی سوچو این جی اوزکیا تھیں اورکیا بن گئی ہیں؟

شبیر احمد ارمان

Post a Comment

0 Comments