All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد

محقق عقیل عباس جعفری نے بتایا کہ پی آئی اے کا مشہورِ عالم تعارفی نعرہ ’’ گریٹ پیپل ٹو فلائی ودھ ’’ شان الحق حقی کی تخلیق ہے اور اس کا ترجمہ ’’ باکمال لوگ لاجواب پرواز ’’ فیض احمد فیض کا تحفہ ہے۔کیسا اچھا ہوا کہ حقی صاحب اور فیض صاحب پہلے ہی پرواز کر گئے۔اور اب اچھے وقتوں میں لاجواب پرواز کے لیے جانی جاتی اس ایئرلائن کی روح بھی پرواز کیا چاہتی ہے کہ جس کا ڈھانچہ عرصہ ہوا گدھ نوچ کھا بیٹھے مگر بھوک باقی ہے۔

پانچ روز قبل حکومت نے قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کا شور و غوغا  خاطر میں نہ لاتے ہوئے پی آئی اے کو وزارتِ دفاع کے ایک ذیلی ادارے سے پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کردیا۔ اب اس کے کم ازکم چھبیس فیصد حصص کسی ایسی کمپنی کو فروخت کیے جا سکتے ہیں جو پی آئی اے کو ایک میجر سرجری کے ذریعے چلنے پھرنے جیسا بنا سکے۔

اس وقت خسارہ زدہ اداروں کے روپ میں سرکار جو چند سفید ہاتھی پال رہی ہے ان میں اسٹیل ملز اور پی آئی اے سب سے بڑے ہیں۔ ایسے وقت جب ہر جانب پاک چائنا اکنامک کاریڈور کا غلغلہ ہے اور موقع شناس سرمایہ کار اگلے پندرہ برس پر پھیلے اتنے بڑے منصوبے کے لیے اسٹیل سازی کے پروجیکٹس لگانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

حکومت پاکستان اسٹیل ملز کو لاحق کرپشن اور مالی بدانتظامی کا کوڑھ دور کر کے پاک چائنا اکنامک کاریڈور کی تعمیراتی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے کسی بھی قیمت پر سر سے اتارنے کا سوچ رہی ہے۔ مگر کوئی ’’جینین پارٹی’’یہ گرم آلو تالو سے لگانے کو یوں تیار نہیں کہ جہیز میں اسٹیل ملز کا اونٹ مفت لیکن اونٹ کے گلے میں پڑی خسارے کی بلی اربوں کی ہے۔ یہ چند سو ارب اتنے ہیں کہ کوئی عرب بھی اس طرف پھٹکنے کی جرات نہیں کر رہا۔
جب کہ اتنا ہی بڑا سفید ہاتھی عرف پی آئی اے اس وقت تین سو ارب روپے کے قرضے تلے سسک رہا ہے اور اسے زندہ رکھنے کے لیے سالانہ بیس سے تیس ارب روپے کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔ مگر پی آئی اے کے ملازمتی پسماندگان  ادارے کی کلینیکل ڈیتھ کے باوجود لائف سپورٹنگ مشین ہٹانے کے شدید خلاف ہیں۔

نہ ہی وہ اس کے حامی ہیں کہ دنیا کی دیگر ایرلائنز کی طرح پی آئی اے بھی مالی بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ایسے شعبے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردے جن کا بنیادی فضائی آپریشن سے بلاواسطہ تعلق ہے۔ مثلاً مینٹیننس ، گراؤنڈ ہینڈلنگ ، کارگو مینجمنٹ وغیرہ۔ ان شعبوں کا انتظام  اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضد کے سبب پی آئی اے کی افرادی قوت فی جہاز سات سو ملازمین تک پہنچی ہوئی ہے۔ جب کہ دنیا کی چوتھی بڑی ایئر لائن امارات میں فی جہاز افرادی قوت دو سو بیس کے لگ بھگ ہے۔

دیگر ایئرلائنز تیزی سے بدل رہی دنیا میں خود کو کارپوریٹ کلچر میں ڈھال رہی ہیں تاکہ مستعد افرادی قوت زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکے۔ مگر پی آئی اے آج بھی سرتاپا بیوروکریٹک کچھوا ہے۔اس کے بنیادی فیصلوںمیں ادارتی مفاد کو اولیت دینے سے زیادہ فیصلہ سازوںکے ذاتی و سیاسی مفادات کو فوقیت ہے۔
منافع بخش و مستعد ادارے کس طرح سفید ہاتھی بنتے ہیں ؟ یہ سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس میں ڈاکٹریٹ ضروری نہیں۔ہر حکومت پہلے تو سرکاری اداروں کو ’’ ساڈے بندوں ’’ سے بھرتی ہے اور جب ان اداروں کی تنظیمی و مالی ہڈیاں میرٹ سے عاری ’’ساڈے بندوں‘‘کے بوجھ سے چٹخنے لگتی ہیں تو ادارے کے بجائے بندے بچانے پر توجہ دی جاتی ہے چنانچہ بندے ادارہ لے کر ڈوب جاتے ہیں۔اسٹیل ملز ، ریلوے ، محکمہ تعلیم اور پی آئی اے سامنے کی مثالیں ہیں۔ان اداروں کو چونکہ یقین ہوتا ہے کہ بے اعتدالیوں کا جرمانہ بھرنے کے لیے سرکاری خزانہ و سرپرستی حاضر ہے لہذا نجی اداروں کے برعکس جوابدہی سے بے نیاز سفید ہاتھی کا قد بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

مثلاً یہ بھی ایک نادر واقعہ ہے کہ پی آئی اے کا بوجھ کم کرنے کے لیے جب ایک بار گولڈن ہینڈ شیک اسکیم متعارف کرائی گئی تو اس اسکیم میں شامل ہونے والوں کے واجبات قرض لے کر بیباق کیے گئے۔

نااہلوں سے زیادہ اہل افراد نے گولڈن ہینڈ شیک کر لیا اور پھر دیگر ایرلائنز اور ہوابازی سیکٹر میں پہلے سے بہتر نوکری حاصل کرلی۔جن سے جان چھڑانا مقصود تھا وہ آج بھی جمے ہوئے ہیں۔یوں گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کے تحت برین ڈرین کے ساتھ ساتھ قرضہ اور بڑھ گیا۔جب ایسے ایسے لال بھجکڑ بھاری تنخواہیں لے کر اتنی شاندار حکمتِ عملی بنا خوف ِجوابدہی نافذ کر رہے ہوں تو قارون بھی پچھلی دیوار کود کے فرار ہو جاتا ہے۔مرے پے سوواں درہ یہ پڑ گیا کہ سن دو ہزار میں اوپن سکائی پالیسی کے تحت گلف، امارات اور پھر قطر ایرویز جیسے عقابوں نے پی آئی اے کے بیمار کبوتر کے منہ سے رہا سہا ٹکڑا بھی چھین لیا۔ایسی کمرشل ہارا کاری کی مثال شائد ہی کہیں اور مل پائے۔

حکومتیں اگر چاہتیں تو سیاحت اور شہری ہوابازی کا بیاہ کروا  کے دونوں ہاتھوں سے کما سکتی تھیں۔مثلاً گلگت بلتستان سیکٹر میں آج سے نہیں ہمیشہ سے سیاحوں کی دلچسپی ہے۔ علاقے میں ایئرپورٹس اور سیاحتی نیٹ ورک کو مربوط ، جدید اور ون ونڈو بنا کر پی آئی اے کی بیماری کسی حد تک دور ہوسکتی تھی۔
مگر اس سیکٹر میں صرف اسکردو ایئرپورٹ اس قابل ہے جہاں بڑے طیارے اتر سکیں جب کہ گلگت ایئرپورٹ پر آج بھی چھوٹے جہاز اتر سکتے ہیں اور وادی میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی ٹہلتا ہوا آجائے تو پرواز منسوخ ہو جاتی ہے۔

اس علاقے سے خشک میوہ جات کے کارگو سے بھی ایئرلائن کو مستقل آمدن ہوسکتی تھی۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سوتے کو تو جگا لوں ، جاگتے کو کیسے جگاؤں۔ جس سیکٹر پر سالانہ چھ لاکھ سیاح پروازوں کے لیے ترس رہے ہوں۔وہاں پستہ ، بادام ، اخروٹ ، خوبانی ، قیمتی پتھروں اور دھاتوں کا ہزاروں ٹن کارگو کیا بیچتا ہے۔ وہ تو حج پروازوں نے کچھ سفید پوشی رکھی ہوئی ہے ورنہ تو پی ائی اے کا آخری لنگوٹ بھی کب کا گر چکا ہوتا۔

دنیا بھر میں کاروباری اصول ہے کہ ’’ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تب بوجھ اتارا کرتے ہیں ’’۔ مگر اپنے پاکستان میں بھلے ٹیکس اصلاحات کا معاملہ ہو کہ سفید ہاتھیوں کا قد گھٹانے کا سوال۔ اپیلیں ، احتجاج ، اللہ رسول کے واسطے ، بچوں کے پیٹ کا سوال ، بے روزگاری کی دہائی جیسے اسپیڈ بریکرز راستے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ایسے میں بھلا کون سی حکومت ہوگی جو اپنی اگلی مدتِ اقتدار کی توقع خطرے میں ڈالتے ہوئے عوام دشمن اور سفاک کہلائے۔چنانچہ اصلاحات کی سمت ایک قدم بڑھا کر دو قدم پسپائی اختیار کرکے ایک اور لمبے عرصے کے لیے ریت میں منہ چھپا لیا جاتا ہے اور روزگار کے نام پر نااہلوں میں خیرات کا بٹنا جاری رہتا ہے۔
مزے کی بات ہے کہ حکومت کو لاہور کی میٹرو ریلوے اورنج لائن کی تعمیر کے دوران ہزاروں افراد کے بے دخل ہونے کی پروا نہیں مگر سفید ہاتھی اداروں میں چھانٹی کر کے قومی اثاثہ بچانے کے معاملے پر اس کے ہاتھ جلتے ہیں۔ کوئی واضح پالیسی اپنانے کے بجائے چہرہ بچانے کے لیے چور دروازی اقدامات اور کنفیوژن پھیلاؤ مہم کا سہارا لیا جاتا ہے۔یوں ایک اچھا کام بھی بیٹھے بٹھائے برائی نظر آنے لگتا ہے۔رہی حزبِ اختلاف تو اس نے اگر جانتے بوجھتے بھی معاشی زبوں حالی کی آگ پر ہاتھ نہ تاپے اور حکومت کو بات بے بات اڑنگا نہ لگایا تو پھر کاہے کی حزبِ اختلاف۔

میں بھی عجیب شخص ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں - جون ایلیا 

وسعت اللہ خان


Post a Comment

0 Comments