All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائیں ہم اور ہمارا میڈیا ان کی آمد ہی پر اس قدر خوش ہیں کہ ان کی آمد کو دونوں ملکوں کے درمیان موجود بدترین تعلقات کے حوالے سے ایک بہت بڑا نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔

محترمہ نے پاکستانیوں کو آتے ہی یہ خوش خبری سنائی ہے کہ ’’میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا پیغام لائی ہوں‘‘۔ ہم اس بات پر فخر سے پھولے نہیں سما رہے ہیں کہ عنقریب دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونے والا ہے اور یہ مذاکرات کوئی عام قسم کے نہیں بلکہ ’’جامع مذاکرات‘‘ ہوں گے۔ جامع مذاکرات پر ہماری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ ان مذاکرات میں کشمیر بھی شامل ہوگا۔ پچھلے جامع مذاکرات میں بھی بھارت مسئلہ کشمیر پر بات کرتا رہا ہے اور وہ بات صرف اتنی ہوتی ہے کہ بھارت کہتا ہے ’’کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ 

کشمیر کا مسئلہ 68 سال پرانا ہے، اس مسئلے کی بے شمار تاویلیں کی جاتی ہیں لیکن اگر اس مسئلے کی مختصر لیکن جامع تشریح کی جائے تو وہ یہی ہوسکتی ہے کہ یہ مسئلہ ’’طاقت اور کمزوری‘‘ کا مسئلہ ہے اگر پاکستان طاقت کے حوالے سے بھارت کے ہم پلہ ہوتا تو نہ یہ مسئلہ پیدا ہوتا نہ 68 سال تک بے مقصد بے معنی مذاکرات کا موضوع بنتا۔

ہماری شاطرانہ سیاست میں مذاکرات کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، امریکا بہادر تو مذاکرات کو اس قدر سر پر بٹھا لیتا ہے کہ اسے ہر مرض کی واحد دوا قرار دیتا ہے، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکا ہمیشہ دونوں ملکوں کو مذاکرات کا ہی درس دیتا ہے، اب سشما سوراج کے دورہ پاکستان کے موقعے پر بھی اس کا یہی کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے اختلافات دور کرنے کا واحد حل مذاکرات ہیں، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ 68 سال سے مذاکرات کی جو جھک ماری ہو رہی ہے اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟
بلاشبہ اختلافات کا حل جنگوں سے نہیں مذاکرات ہی سے ہونا چاہیے لیکن مذاکرات اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب فریقین’ کچھ لو کچھ دو ‘ کے اصول کو اپناتے ہیں جب سوئی اٹوٹ انگ پر ہی اٹک جائے تو مذاکرات سوائے دھوکے اور بکواس کے کچھ نہیں رہ جاتے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں دنیا کے پسماندہ ترین ملک ہیں ۔

جہاں 53 فیصد عوام غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ایسے ملکوں میں اگر عوام کی زندگی کو بہتر بنانے انھیں بھوک و افلاس بے کاری بیماری سے نجات دلانے کے لیے دفاع کے نام پر خرچ کیے جانے والے اربوں کھربوں روپے اگر عوام کو بھوک بے روزگاری بیماری سے بچانے کے لیے خرچ کیے جائیں تو اس سے بڑھ کرکوئی نیک کام نہیں ہوسکتا لیکن اس کے بجائے کشیدگی کو برقرار رکھ کر مسئلے کو پینڈنگ میں ڈال کر ہتھیاروں کی دوڑ کو ترجیح دی جائے تو ایسی قیادت اپنے ملک کے عوام علاقے کے عوام اور دنیا کے عوام کے لیے بھی ایک لعنت سے کم نہیں اور انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بھارتی قیادت نہرو سے لے کر نریندر مودی تک اپنے عوام خطے کے عوام دنیا کے عوام کے لیے ایک لعنت بنی ہوئی ہے۔

پاکستان دہشت گردی کی مصیبت میں عشروں سے گرفتار ہے اور اب تک 50 لاکھ سے زیادہ پاکستانی دہشت گردی کے شکار ہوچکے ہیں۔ان حقائق کو سمجھنے کے بجائے پاکستان پر یہ الزام لگانا کہ وہ دہشت گردی کا اڈہ اور دہشت گردوں کا سرپرست ہے سوائے عقلی دیوالیہ پن کے کیا ہوسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی دہشت گردی کی چھوٹی موٹی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان وارداتوں میں پاکستان کی مذہبی انتہا پسند طاقتیں ملوث ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کشمیری عوام کو طاقت کے ذریعے قابو میں رکھنے کے لیے بھارتی حکمرانوں نے جو 7 لاکھ فوجی کشمیریوں پر مسلط کر رکھے ہیں کیا وہ دہشت گردوں سے کم ہیں کیا اب تک 70 ہزار کشمیری پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں یا بھارتی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں؟

اقوام متحدہ نے کشمیر کے مسئلے کا حل کشمیر میں رائے شماری تجویزکیا ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو قصہ پارینہ کہتا ہے اور جواز یہ پیش کرتا ہے کہ کشمیر میں کئی انتخابات ہوچکے ہیں جن میں کشمیری عوام نے حصہ لیا ہے لہٰذا اب کشمیر میں رائے شماری کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو پسند کرتے ہیں تو پھر بھارت کو رائے شماری کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کشمیری عوام بھارت کی غلامی کو پسند نہیں کرتے جس کا وہ وقتاً فوقتاً اظہار کرتے رہتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہیے ہم کشمیر کے مسئلے کو نہ مذہب کے حوالے سے دیکھتے ہیں نہ ہمارا یہ موقف ہے کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے  بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہیے جب کہ پاکستان اس حد تک جانے کے لیے تیار ہے کہ اس مسئلے کے حل میں کشمیری عوام کی مرضی کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان کے مفادات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔

ہمارا خیال ہے کہ 68 سال کا عرصہ اور ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام کے بہتر مستقبل کا تقاضا ہے کہ اب بھارتی قیادت کو اٹوٹ انگ کے سحر سے نکلنا چاہیے اور محض جامع مذاکرات کے ڈھکوسلے میں پناہ لینے کے بجائے جامع مذاکرات کا اصل ایجنڈا مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اسی طریقے سے دونوں ملک نفرتوں، جنگوں کے حصار سے باہر نکل سکتے ہیں اور اسی طرح عوام کے بہتر مستقبل کی امید پیدا ہوسکتی ہے کیا سشما سوراج یہ پیغام لے جاسکتی ہیں؟

ظہیر اختر بیدری

Post a Comment

0 Comments