All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ممنون صاحب - سود سے عشق ممنوع ہے

کچھ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ خاموش ہی رہا کریں کیونکہ اُن کا بولنا اور منہ کھولنا پرسکون ماحول کو کسی بھی لمحے مکدر کردینے کے لئے کافی ہوتا ہے....اور پھر ویسے بھی جب بولنے کے لئے کچھ نہ ہو تو لازم ہے کہ زبان پر جو’’آئینی قفل‘‘ ہے اُسے ’’چوری‘‘ سے کھولنے کی قطعاً کوشش نہ کی جائے ورنہ سوائے ہزیمت کے کچھ حاصل نہیں ہو گا.... ویسے بھی ہمارے صدر مملکت کی یہی شان ہےکہ وہ ’’چُپ‘‘ رہا کریں

 کیونکہ کسی بھی جانب سے’’چُپ رہو!‘‘ کا تحکمانہ انداز بلاشبہ اُن کی حرمت کے خلاف ہی نہیں بلکہ اُن کے آئینی منصب کی تضحیک کے بھی مترادف ہے....گزشتہ روز عزت مآب نے علمائے کرام کی موجودگی میں ایک کنونشن سے خطاب فرماتے ہوئے فقہ و اجماع کے رہنماؤں سے یہ اپیل کر ڈالی کہ ’’سود کے معاملے میں تھوڑی سی گنجائش پیدا کریں

ممنون صاحب! سود سے عشق ممنوع ہے ، حرام ہے ،گناہِ بے لذت ہے اور اللہ اور اُس کے رسول سے کھلی جنگ کے مترادف ہے ....آج آپ علمائے کرام سے سود کے معاملے میں گنجائش پیدا کرنے کی اپیل کر رہے ہیں اور کل آپ کہیں یہ نہ فرمادیں کہ ’’طبقہ اشرافیہ میں زنا ایک فیشن اختیار کرگیا ہے، اگر علمائے کرام تھوڑی سی گنجائش اِس میں پیدا کرلیں تو کیا ہی اچھی بات ہوگی‘‘....اِسی طرح آپ کے چال چلن اور کھلتے ہوئے ’’کھلن‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے عین ممکن ہے کہ بعض شرابی وزرا اور حکومتی زعما آپ کے پاس کسی وفد کی صورت میں آئیں اور آپ سے درخواست کریں کہ ’’حضورِ والا! آپ کی تو بہت سنی جاتی ہے،

 آپ کے التجائی جملوں سے اسلام کی تشریح کرنے والے علمائے کرام کا دل ایسا پگھلا کہ اُنہوں نے سود جیسے معاملے میں ’’اعتدال‘‘ کی راہ نکال لی تو پھر کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم جو کہ ’’ٹُن پارٹیاں‘‘ ہیں اُن کے لئے بھی ایک ایسی ہی اپیل ہوجائے، ہمیں یقین ہےکہ شارح شریعت کے امین اِس پر ضرور غور فرمائیں گے اور ہمیں پینے پلانے کی ’’آفیشل‘‘ سہولت دستیاب ہو جائے گی....
اب اگر آپ یہ فرمائیں گے کہ عامر لیاقت صاحب! میں نے یہ سب تو نہیں کہا تھا، آپ کس قدر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں....تصورات کی دنیا میں آپ نے نفرت کے کینوس پر میری کتنی کریہہ تصویر بنا ڈالی ہے ، میں نے ایسا کب کہااور میرا یہ مقصد تو ہر گز نہیں تھا....آپ نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، یہ تو نہایت ہی نامناسب اور غیر اخلاقی انداز ہے وغیرہ وغیرہ.... اور میں جانتا ہوں کہ یہ بات کہنے کے لئے کون فون کرسکتا ہے لیکن اِس سے پہلے ہی میں اِس شکوے، شکایت یا احتجاج کا جواب آپ کو یوں دیئے دیتا ہوں کہ ’’پیارے ممنون صاحب! زنا، شراب اور حرابہ جیسے جرائم ’’سود‘‘ کی گنجائش نکالنے کی درخواست کے سامنے ’’پالنے میں ٹانگیں ہلاتے بچے‘‘ سے بھی چھوٹے ہیں، میں تو حیران ہوں کہ آپ نے یہ انتہائی گری ہوئی بات کہہ کیسے دی؟ سود تو ایسا حرام عمل ہے کہ جس کا سب سے ہلکا درجہ قولِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ’’اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے‘‘  استغفر اللہ 

اور یہ علما کون ہوتے ہیں گنجائش نکالنے والے؟اور جناب! کیوں نکالیں گے گنجائش؟ اب کیا احکاماتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ کو ’’بشار الاسد‘‘ کی طرح اپنی مرضی کے مطابق چھپوایاجائے گا؟.... کیا اسلام اتنا ’’غریب‘‘ ہوگیا ہے کہ جس کا جی چاہے اپنی سہولت کے مطابق معاذ اللہ قرآن چھپوالے اور پھر اپنے کیے ہوئے حلال کو حلال اور اپنے کہے ہوئے حرام کو حرام مان کراِسے قوم پر نافذ بھی کردے

جنابِ صدر! آپ نے معمولی بات نہیں کی ہے ، جس کو بھی سود کی تباہ کاریوں اور قرآن میں اِس کی شدید ترین مذمت کے بارے میں علم ہے اُس کا دل دہل کر رہ گیا ہے .... دل تو میرا بھی دہلا ہوا ہے کہ علمائے کرام کیوں خاموش ہیں؟.... کدھر ہے وفاق المدارس؟ کہاں ہیں تنظیماتِ مدارسِ دینیہ؟....مدارسِ اہل سنت سے آواز کیوں نہیں اُٹھی؟ اہلِ حدیث کیوں خاموش ہیں؟ اور اہل تشیع نے چُپ کیوں سادھ لی ہے ؟ کیا سود کی گنجائش پیدا کرنے کی درخواست اُس حلف سے غداری نہیں جو ممنون حسین صاحب نے پاکستان کے صدر کی حیثیت سے ’’خاموش رہنے ‘‘ کے لئے اُٹھایا تھا 

اور اگر کوئی اظہارِ مذمت نہیں کرتا یا صدر صاحب اپنے الفاظ سے رجوع نہیں کرتے توپھر مجھے لکھنے دیجیے، کہنے دیجیے کہ قیامت قریب آن پہنچی ہے ....خدا کی قسم! قرآن حجت ہے اور حدیث اُس کی تشریح، لہذا اللہ اور اُس کے حبیب نے جسے حرام قرار دے دیا وہ قیامت تک کے لئے حرام ہے، جب خلفائے راشدین جیسی عظیم المرتبت ہستیاں جنہیں اُن کی حیات ہی میں جنت کی بشارت عطا فرما دی گئی تھی، وہ گنجائش نہیں نکال سکتیں تو علمائے کرام تو اُن کے در کے بھکاری سے زیادہ کچھ نہیں اور میں علما کی چوکھٹ پر ایک فقیر سے زیادہ کچھ نہیں

صدر صاحب! جو ہستی گنجائش نکال سکتی تھی (صرف سمجھانے کے لئےکہہ رہا ہوں ورنہ میرے آقا تو وہی ارشاد فرماتے ہیں جو اُن پر وحی کی جاتی ہے ) اُسی پیارے مصطفی نے حجۃ الوداع کے موقع پر صاف اور واضح ارشاد فرما دیا تھا کہ ’’ میں تمام سود باطل قرار دیتا ہوں....اور سب سے پہلے اپنےچچا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے سود کو باطل قرار دیتا ہوں‘‘.... وہ کہ جن کی رضا خدا چاہتا ہے اور وہ کہ جو خدا کی ہی رضا چاہتے ہیں جب اُنہوں نے اِسے ’’جنگ‘‘ قرار دے دیا اور وہ بھی کس سے ؟ دنیا یا دنیا والوں کے قوانین سے سے نہیں بلکہ اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ....یعنی بتلانا یہ مقصود تھا کہ تم شاید تمام جنگیں جیت لو لیکن اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ کرو گے تو کبھی کامیاب نہیں ہوگےِ

کبھی فلاح نہیں پاؤ گے اور بالآخر ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا کردیے جاؤ گے 
صدر صاحب!فربہ جسم پر شیروانی چڑھا لینے سے اسلام شناخت نہیں بنتا، ملا فضل اللہ لاکھ عمامے پہنے، ابوبکر البغدادی لاکھ بار اپنے آپ کو ابوبکر کہہ کر دین کا اصل محافظ ثابت کرے یا کوئی غلام احمد بن کر ختم نبوت پر وار کرے، سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیںکیونکہ اِنہوں نے اپنے فہم ، دیوانگی اور جنون کو اپنے پیروکاروں پر مسلط کر کے اُسے اسلام کا نام دے دیا ہے لیکن اسلام تو وہی ہے جسے اللہ نے پسند کیا ہے اور اللہ نےاُسی اسلام کو پسند کیا جسے اللہ ہی کے حکم سے اُس کے پیارے، اُس کے محبوب اور اُس کے بھیجے ہوئے خاتم نےکہ جن کے بعد بے شک کوئی نبی نہیں انسانوں میں متعارف کرایا اور اپنے اعلیٰ اخلاقِ حسنہ سے اِس طرح پھیلایا کہ بڑائی کی بنیاد امارت و غربت نہیں بلکہ تقویٰ قرار پایا اور وہ بھی ایسا تقوی کہ کوئی دعویٰ نہ کرے کہ ’’میں متقی ہوں‘‘ بلکہ اللہ ہی بہترجانتا ہےکہ کون متقی اور پرہیزگار ہے  

جنابِ صدر! میری آپ سے گزارش بھی ہے اور مشورہ بھی، ملتمس بھی ہوں اور ملتجی بھی کہ آپ اپنے کہے سے رجوع فرما لیجیے اور کیونکہ آپ نے یہ بات ایک کنونشن میں کہی ہے اِسی لئے علما کو اپنے ہاں دعوت دے کر اُن کے سامنے رجوع فرما کر میڈیا پر اِس کی تشہیر کردیں....مجھے یقین ہے کہ آپ نے جو کچھ بھی فرمایا لاعلمی میں فرمایا میں اپنے آقا کریم کی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کے لئے حسنِ ظن رکھتا ہوں اور یہی حسن ظن آپ کے لئے بھی ہے .... مجھے اُمید ہے کہ آپ اپنے حلف کا پاس رکھتے ہوئے اُن سنگین جملوں سے اعلانیہ لاتعلقی کا اظہار کریں گے جن کے سبب صدارت تو شاید برقرار رہے لیکن رب کی ’’عدالت‘‘ میں کوئی معافی نہیں

 بشکریہ روزنامہ 'جنگ 

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین

Post a Comment

0 Comments