All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

دنیا کے عظیم الشان باغوں میں شمار ہونے والا شالا مار باغ

شالا مار باغ کا شمار دنیا کے عظیم الشان باغوں میں ہوتا ہے۔ مغل بادشاہ شاہجہان نے جب لاہور میں دربار لگایا تو علی مردان خان نے اسے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسا شخص موجود ہے ،جو نہر بنانے میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔ شاہ جہاں نے خوش ہو کر حکم دیا کہ دریائے راوی سے ایک نہر نکال کر لاہور کے پاس سے گزاری جائے۔ شاہ جہان نے یہ نہر تیار کرنے کے لیے دو لاکھ روپے دیئے۔ 

ایک سال کے بعد جب شاہ جہاں دوبارہ لاہور آیا تو نہر مکمل ہو چکی تھی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس نہر کے کنارے ایک وسیع و عریض اور بہت خوبصورت باغ تعمیر کیا جائے اور اس باغ میں بارہ دری، شاہی غسل خانے، فوارے اور جابجا پھلدار درخت لگائے جائیں۔ بادشاہ نے اس کام کے لیے خلیل اللہ خان کو مقرر کیا، لہٰذا خلیل اللہ خان نے ملک کے کئی اور افسروں کو ساتھ لگا کر اس باغ کی تعمیر شروع کر دی۔ باغ کے لیے درختوں کے پودے قندھار اور کابل سے منگوائے گئے۔ یہ باغ شالا مار تھا، جو اسی(80) ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔
 اس باغ کا سنگ بنیاد 1637ء میں رکھا گیا۔ اس پر چھے لاکھ روپے کے لگ بھگ لاگت آئی اور یہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مکمل ہوا۔ شاہ جہاں نے لاہور کے قریب جو باغ لگوایا، اس کا نقشہ کشمیر والے باغ کے مطابق تھا ،لہٰذا اس کا نام بھی شالامار باغ رکھ دیا گیا۔ شالامار باغ تین تختوں پر مشتمل ہے۔ تینوں تختے تین الگ الگ باغ ہیں، جن کے نام فیض بخش، حیات بخش اور فرح بخش ہیں۔ یہ تختے یا باغ ایک دوسرے سے بارہ یا تیرہ فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ ہر اونچے تختے سے نیچے اترنے کے لیے خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ باغ میں ایک دلکش تالاب بھی بنا ہوا ہے، جس میں بہت سارے فوارے لگے ہوئے ہیں۔

 فواروں کا پانی سنگ مرمر کے حوضوں میں گرتا ہے۔ یہ فوارے گرمیوں کے موسم میں جگہ ٹھنڈی رکھنے کے لیے لگوائے گئے تھے۔ یہاں پر سنگ مرمر کی پانچ خوبصورت بارہ دریاں بنائی گئی ہیں۔ بادشاہ ان بارہ دریوں میں بیٹھ کر برسات کا نظارہ کیا کرتا تھا۔ باغ کے ایک حصے میں، جسے حیات بخش کہتے ہیں۔ سنگ ِمرمر کا ایک بہت ہی خوشنما تخت بنوایا گیا ہے۔ شاہ جہاں اس تخت پر بیٹھ کر اپنا دربار لگایا کرتا تھا۔ کچھ فاصلے پر سنگ ِمرمر کی ایک آبشار بنی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء چونکہ شاعرہ تھی، اس لیے اکثر اس جگہ بیٹھ کر شعر کہا کرتی تھی۔
 شالا مار باغ میں شاہ جہاں نے اپنے لیے حمام بھی بنوایا تھا۔ حمام کے تین حصے تھے ۔ایک حصے میں دو فوارے اور دوسرے حصے میں حوض ہے۔ اس حوض میں گرم اور ٹھنڈا دونوں طرح کا پانی لایا جاتا تھا۔ سنگ ِمرمر کے کئی طاقچے چراغ رکھنے کے لیے بنوائے گئے تھے۔ جب یہاں چراغ جلائے جاتے تھے، تو حوض میں گرنے والا پانی بارش کا سماں پیدا کرتا اور چراغ کی روشنی بجلی کی چمک کی طرح معلوم ہوتی ۔ بادشاہ اس نظارے سے بہت لطف اٹھاتا تھا۔ باغ فرح بخش، جسے پائیں باغ بھی کہا جاتا تھا، حیات بخش سے نیچے بنا ہوا ہے۔شالا مار باغ میں بہت پھلدار درخت لگے ہوئے ہیں۔ شاہجہان جب لاہور آیا، تو امیروں اور وزیروں نے عرض کی کہ حضور! شالامار باغ مکمل ہو چکا ہے۔ 

بادشاہ باغ میں داخل ہوا، تو شالامار کا حسن دیکھ کر باغ باغ ہوگیا۔ اس وقت شاہجہان کے نائبین نے حاضر ہو کر مبارکبادیں اور سب نے مل کر شاہی حکومت کی بہتری اور برتری کے لیے دعائیں مانگیں۔ اس موقع پر ملک کے بڑے بڑے عالم، فاضل اور بزرگ موجود تھے۔ ان عالموں نے بادشاہ سے کہا کہ ہم نے آج تک ایسا خوبصورت باغ کہیں دیکھا نہ سنا ہے۔ لاہور کا شالا مار باغ دنیا کے عظیم الشان باغوں میں شمار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کسی دوست ملک کا سربراہ، بادشاہ یا کوئی نامور شخص پاکستان کے دورے پر آتا ہے، تو لاہور میں شالا مار باغ کی سیر ضرور کرتا ہے۔ اس باغ میں معزز مہمانوں کو شہریوں کی طرف سے استقبالیہ دیا جاتا ہے۔
 ہزاروں شہری معزز مہمان سے ملتے ہیں اور بات چیت کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد دوست ملکوں کے سربراہ اور نامور رہنماء اکثر یہاں آتے رہتے ہیں اور باغ میں استقبالیہ ان کے پروگرام کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ معزز مہمانوں کو شالا مار باغ میں دعوت دینے کی رسم انگریزی حکومت کے زمانے میں بھی رائج رہی چنانچہ 1876ء میں شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم جو اس وقت پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد سلطنت تھے برصغیر کی سیاحت کے سلسلے میں لاہور آئے، تو ان کے اعزاز میں پنجاب کے گورنر نے شالا مار باغ میں رات کے وقت ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا۔ شالا مار باغ کی شاہی حیثیت برس ہا برس پہلے ہی ختم ہو چکی تھی، لیکن اس عوامی سیرگاہ کی حیثیت لازوال ہے۔ 

باغ کی سیر کرنے کے لیے لوگ دور دراز سے آتے ہیں۔ بہار کے شروع میں یہاں میلہ چراغاں بھی لگا کرتا تھا، جو پنجاب کا سب سے بڑا میلہ خیال کیا جاتا ہے۔ اب یہ میلہ باغ کے باہر لگتا ہے۔ یہ باغ مغل بادشاہوں کی عظمت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اس کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کی بقاء اور تحفظ کے لیے خصوصی مہم شروع کر رکھی ہے۔ 

شیخ نوید اسلم
 پاکستان کے آثارِ قدیمہ
 
 

Post a Comment

0 Comments