All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی--شاہنواز فاروقی

اقبال نے ایک جانب اپنی شاعری میں مغرب کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے:
کب ڈوبے کا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
اور دوسری جانب یہ اعلان کیا ہے:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

اقبال کے تمام تر احترام کے باوجود بہت سے لوگوں کو اقبال کی یہ بات ”شاعرانہ“ محسوس ہوتی ہے۔ شاعرانہ سے ان کی مراد خواب و خیال کی بات ہے۔ یہ بھی رعایت ہے۔ اقبال کے سوا یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی تو لوگ اسے پاگل کہتے۔ لیکن اقبال کے علم اور ان کی شخصیت کا رعب ایسا ہے کہ کہنے والے اقبال کی بات کو شاعرانہ کہہ کر رہ جاتے ہیں۔

البتہ کچھ لوگ اس سے ذرا آگے جاکر یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ آخر مغربی تہذیب کب خودکشی کرے گی؟ اقبال کی پیشگوئی کو زیادہ نہیں تو 60 برس تو ہو ہی گئے ہیں مگر مغربی تہذیب کی خودکشی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اس بات پر یہ اضافہ بھی اکثر کردیا جاتا ہے کہ مغرب برا سہی مگر وہ پوری دنیا پر غالب ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی قابل قدر بات بھی ضرور ہوگی۔ چنانچہ مغرب کے ناقدروں کو فرصت ملے تو انہیں اس بات کا جائزہ لے لینا چاہیے۔

اقبال کا یہ شعر سیدھا سادا ہے اور اس کے کم و بیش تمام ہی قاری سمجھتے ہیں کہ وہ اسے سمجھتے ہیں‘ لیکن ہمارے قلوب‘ نفوس اور اذہان کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے سیدھی باتیں ہماری سمجھ میں مشکل ہی سے آتی ہیں‘ البتہ تمام ٹیڑھی باتیں ہم فوراً سمجھ لیتے ہیں۔ چنانچہ اقبال کے اس شعر پر ایک بار پھر غور کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نے اس شعر کو کسی اور طرح سمجھا ہو۔

اس شعر کے مصرعہ اولیٰ کا کلیدی اور اہم ترین لفظ ”خنجر“ ہے۔ یہاں خنجر کا مطلب ”ہتھیار“ ہے اور ”ہتھیار“ دفاع کے لیے ہوتا ہے‘ خودکشی کے لیے نہیں۔ لیکن یہاں اس کا مصرف الٹ گیا ہے۔ دفاع کے لیے رکھی گئی چیز خودکشی کے کام آرہی ہے۔ اس کا مفہوم کیا ہے؟

آپ کو فرعون کا قصہ یاد ہے‘ اسے اپنی تین قوتوں پر بھروسا تھا: جادو‘ فوج اور اس کا عجیب الخلقت خواب۔ اور جب اس کی یہ تینوں قوتیں ناکام ہوگئیں تب اس پر منکشف ہوا کہ وہ پہلے دن سے غلط تھا۔ مطلب یہ کہ اس کے ہتھیار ہی اسے لے ڈوبے‘ اور جب غفلت کا پردہ اٹھا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس سلسلے میں قرآن پاک کی تعلیم یہ بتاتی ہے کہ وہ غافلوں کی رسّی دراز کرتا ہے تاکہ انہیں اپنے درست ہونے کا پورا یقین ہوجائے‘ اور جب یقین پختہ ہوجاتا ہے تو پھر وہ رسّی کھینچ لیتا ہے۔ اقبال کے اس مصرعے کا ایک پہلو تو یہ ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہاں خنجرکا لفظ مغرب کے لیے لغت اور محاورے دونوں اعتبار سے درست ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مغرب کی عسکری قوت کی علامت ہے جو مغرب کا ”امتیاز“ ہے۔ محاورے میں یہاں خنجر سے مراد مغرب کی قوت کے تمام مظاہر ہیں.... اس کی فوجی و اقتصادی قوت‘ اس کے علوم‘ اس کے فنون۔ اس اعتبار سے اقبال کے اس مصرعے کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیزیں بظاہر مغرب کے عروج کا باعث ہیں اس کا زوال بھی انہی سے برآمد ہوگا۔

اقبال کے اس شعر کے دو مصرعوں کا باہمی تعلق یہ ہے کہ پہلے مصرعے میں ایک دعویٰ ہے: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی۔ اور دوسرے مصرعے میں اس دعوے کی دلیل ہے: جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اقبال کے اس مصرعے میں ”شاخِ نازک“ سے مراد کیا ہے؟

صرف ایک.... سرتاپا انسانی ساختہ نظام۔ یعنی Men made system۔ مسلم دنیا میں ایسے احمقوں کی کمی نہیں جو فرماتے ہیں کہ دنیا کا ہر نظام ہی انسانی ساختہ ہے‘ کیا قرآن و حدیث کی تعبیر کرنے والے انسان نہیں ہیں؟

کیا فقہی نظام مرتب کرنے والے ائمہ اربعہ انسان نہیں تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں نظام کے اصول تو آسمانی ہیں‘ مغرب میں تو اصول بھی انسانی ساختہ ہیں اور خود نظام بھی۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اسلام میں بلاشبہ نظام بنانے والے انسان ہی ہوتے ہیں مگر ایسے انسان جن کے قلوب و اذہان پر وحی و الہام کی کیفیات کا غلبہ ہوتا ہے‘ چنانچہ ان کی انسانی کاوش بھی اس طرح ”انسانی“ نہیں رہتی جس طرح مغرب میں ہوتی ہے۔ اس طرح اقبال کے مصرعے کا مفہوم یہ ہواکہ مغرب کا پورا بندوبست انسانی ساختہ ہے‘ چنانچہ وہ پائیدار ہو ہی نہیں سکتا‘ اس کی تعمیر میں ہی خرابی کی صورت مضمر ہے۔ تو پھر مغرب کا غلبہ؟

اس لفظ کے معنی تناظر کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ سو نہتّے لوگوں کے سامنے ایک شخص پستول لے کر کھڑا ہوگیا اور ان پر حکم چلانے لگا۔ اس صورت ِحال کو غلبہ کہا جاتا ہے۔ مگر کیا یہ واقعتاً غلبہ ہے؟ ہم نے مغرب کی سیکڑوں چیزوں کو اختیار کرلیا۔ کیا یہ غلبہ ہے؟ بھلا کون ہے جو نقالی کو غلبہ کہے گا؟ تہذیب اور نظام کے حوالے سے غلبے کا صرف ایک مفہوم ہے‘ اور وہ یہ کہ ہم اسے کافی یا Adequate سمجھنے لگیں۔

لیکن اقبال کے الفاظ میں جس تہذیب کے علوم کی بنیاد ”محسوس“ پر ہو وہ اس تہذیب کے لیے کیسے کافی ہو سکتی ہے جس کے دائرے میں ”محسوس“ کُل کا محض ایک جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے پہلے دن سے مغرب کی مزاحمت کی ہے اور ایک چھوٹا سا طبقہ مکمل طور پر مغرب کے زیراثر گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں مغرب کا غلبہ کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے؟

رہا یہ سوال کہ مغرب باقی یا کہنے والوں کے الفاظ میں غالب ہے تو اس میں کوئی تو قابلِ قدر چیز ہوگی؟ اس سوال کا جواب اس سطح پر موجود ہی نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یا تو مغرب کے اصول اور اس کی نہاد درست ہے یا غلط ہے۔ غلط ہے تو اصول کی وضاحت اور تفصیل بھی غلط ہوگی۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ محض باقی رہ جانے سے کسی چیز کا قابلِ قدر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ حضرت نوحؑ ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر اکثریت گمراہی پر اصرار کرتی رہی۔ تو کیا اس بنیاد پر یہ کہا جائے کہ اس کے اصرار میں یقینا کوئی قابلِ قدر بات ہوگی! ایسی بات جو انسانوں کو سیکھنی چاہیے۔ لیکن اس مسئلے کو سمجھنے کی ایک بلند سطح بھی ہے۔

اسلام اور جدید مغربی فکر کے درمیان وہی تعلق ہے جو غیب اور ظاہر کے درمیان ہوتا ہے۔ اسلام کے غیب کا ظاہر بھی ہے‘ لیکن مغرب کے ظاہر کا کوئی باطن نہیں۔ تاہم اس سے قطع نظر اسلام کی اصل غیب پر ہے اور اس کی شہادتیں بھی ایک تعلیم و تربیت کا تقاضا کرتی ہیں۔ لیکن مغرب تو سرتاپا ظاہر ہے اور ظاہر میں خواہ معنی بالکل بھی نہ ہوں مگر وہ فوراً ہی انسان کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ مغرب کی ”دلکشی“ کی اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں۔ یہ ایسی بات ہے جیسے بلندی کی طرف سفر دشوار ہوتا ہے اور پستی کی طرف آسان۔ اس سفر میں انسان کو اپنی قوت صرف نہیں کرنی پڑتی‘ پستی کی کششِ ثقل خود ہی اسے اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔

اب اگر کسی کو اس کی عادت ہوجائے تو پھر وہ بلندی کی طرف سفر کے قابل ہی نہیں رہ جاتا۔ اگر یہی مغرب کی قابلِ قدر بات اور قابلِ قدر اہلیت ہے تو اس سے خدا ہی بچائے۔ اس پر بہرحال کسی معقول شخص کی رال تو کم از کم نہیں ٹپک سکتی۔ لیجیے بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں آپہنچی۔ اقبال کی شاعری کا یہی کمال ہے‘ وہ قاری کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔

عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

شاہنواز فاروقی


Post a Comment

0 Comments