All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کاغان: برفانی تنہائی اور منجمد سیف الملوک

جس صبح میں جھیل سیف الملوک کو منجمد حالت میں دیکھنے اور برف میں آوارگی کی غرض سے نکلا، اس دن دور ہندوکش کے پہاڑوں پر جاتے جاتے پھر سے برف پڑ چکی تھی۔ گاڑی چکراتے ہوئے پہاڑوں پر دوڑتی رہی۔ سفر شروع ہوا۔ وادی ٔکاغان کا نام کاغان نامی قصبے سے پڑا۔ دریائے کنہار اس وادی کے قلب میں بہتا ہے۔ یہ وادی 2134 میٹر سے درۂ بابوسر تک سطح سمندر سے 4173 میٹر تک بلند ہے اور 155 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔

 مذکور علاقہ جنگلات اور چراگاہوں سے اٹا ہوا ہے اور خوبصورت نظارے اس کو زمین پر جنت بناتے ہیں۔ یہاں 17 ہزار فٹ تک بلند چوٹیاں بھی واقع ہیں، جن میں مکڑا چوٹی اور ملکہ پربت شہرت کی حامل ہیں۔ میری منزل ناران نہیں بلکہ برف میں ڈھکی جھیل سیف الملوک تھی کہ جس کی برف ابھی تک نہیں پگھلی تھی، اور آدم زاد بڑی محنت اور تپسیا کے بعد ہی پہنچ سکتا تھا، برف سے نبرد آزما ہو کر اپنی قوتِ ارادی کے طفیل۔ ناران بازار سے گزر کر تھوڑا آگے ایک راستہ بلندی پر واقع دیدہ ور مقام لالہ زار کی طرف مڑ جاتا ہے۔ 
یہ تنگ اور خطرناک جیپ ٹریک ہے مگر منزل پر پہنچ کر مسافر کی خوشی کا ٹھکانہ بھی نہیں رہتا۔ چیڑ کے لمبے درختوں میں گھِرا قدرے ہموار میدان سا جس میں سرسبز فصلیں کھڑی ہوتی ہیں۔ یہاں آلو اور لوبیا کی فصل زیادہ کاشت ہوتی ہے۔ چار گھنٹوں کی مشقت کے بعد جھیل نے اپنی جھلک دکھائی اور یوں دکھائی کہ میں ساکت ہو کر رہ گیا۔ ہر سو سفیدی تھی۔ جھیل نہ تھی بلکہ برف کا میدان تھا۔ جھیل تو کہیں برفوں کی تہہ کے نیچے تھی، پردہ کیے ہوئے۔ عقب میں اور اردگرد جو پہاڑ تھے وہ بھی سفید چادر اوڑھے کھڑے تھے۔ 

ایک ہوٹل کی سرخ چھت سارے منظر میں واحد رنگ تھا، باقی سارا جہان برف کے نیچے تھا۔سیف الملوک کے برفانی میدان کو دیکھتے دیکھتے اس کے کناروں پر پہنچا اور وہیں اپنا کیمپ لگا کر لیٹ گیا۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا اور دھوپ کی شدت ایسی تھی کہ برف سے بھی تپش نکلتی جو جِلد کو جلانے لگتی۔ سانس بھی کم کم آتا تھا۔ کیمپ میں لیٹ کر وقت گزارتا رہا کہ مجھے جھیل کو شام کی ہلکی روشنی میں دیکھنا تھا اور ہو سکے تو پورے چاند کی رات میں ایک جھلک دیکھنا چاہتا تھا۔
 گائیڈ ہر گھنٹے بعد آ کر بولنے کی کوشش کرتا ’’چچ چچ چ چ چ چ چلیں صاحب‘‘تو میں جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی آنکھیں موندے کیمپ میں پڑے کہہ دیتا ہاں چلتے ہیں کچھ دیر بعد۔۔۔! سارا دن کیمپ میں لیٹا اسی جھیل کی یادوں میں گزار دیا کہ جب گرما میں آنا ہوتا تو کیسی رونق اس کے کناروں پر ہوتی، لوگوں کی چہل پہل، ٹھیلے والوں کی آوازیں، کشتی بانوں کی تانیں، بدرالجمال کی کہانی سنانے والوں کی سرگوشیاں۔ جھیل کے کناروں پر موجود گندگی، جوس کے خالی ڈبے، کافی اور چائے کے خالی کپ، آئس کریموں کے ریپرز، بچوں کے پیمپرز۔ 

اب سب گندگی برف کی تہہ کے نیچے تھی۔ جھیل سیف الملوک کے ساتھ لوگوں نے ایسا سلوک کیا ہے کہ کوئی دشمن سے بھی نہ کرے۔ گندگی کی وجہ سے اس جھیل کی رفتہ رفتہ موت واقع ہو رہی ہے اور اس کا حسن گہنا رہا ہے۔ شام ڈھلی اور چاند نکلا۔ جھیل مکمل منجمد تھی۔ سیف الملوک پر چاند ٹِکا تھا۔ پورا چاند۔ چاندنی نے برف پوش پہاڑوں اور جھیل جو کہ ایک کھلا برفانی میدان ہی لگتی تھی، کو ایسے اجال دیا تھا کہ منظر کی چکاچوند آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ میرے پیروں کے نیچے سے لے کر چاند تک بس سفیدی ہی سفیدی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ جھیل اور اردگرد کے پہاڑوں نے ایک ہی سفید چادر اوڑھ رکھی ہو۔ ایک جادوئی داستان۔ بدر الجمال کی کتھا میری آنکھوں کے سامنے جاری تھی مگر پری ناپید تھی صرف دیو تھا۔ دیو بھی حیرت زدہ۔ گنگ۔ خاموش۔ چٹکی ہوئی چاندنی میں ستارے دھیمے دھیمے ٹمٹما رہے تھے۔

احمد مشتاق کا شعر ذہن میں مسلسل گونج رہا تھا: چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے مجھ سے اچھے تو شبِ غم کے مقدر نکلے سیف الملوک کی برفانی اور اداس تنہائی میں دو آدم زادوں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ بس اسی منظر کی چاہ میں چار گھنٹے برف سے نبرد آزما ہوتے اور چڑھائی چڑھتے، رکتے، گرتے، پڑتے، سارا سفر کیا تھا جو اب آنکھوں کے سامنے تھا۔ ناران بازار سے جھیل تک کا ٹریک اتنا چڑھائی والا ہوگا سوچا نہ تھا مگر اسی منظر کی دھن مجھے آگے بڑھنے پر اکساتی رہی تھی۔ میں منجمد جھیل دیکھ کر ساکت رہ گیااور پھر منظر ناقابل برداشت ہوتا گیا۔ دیوانگی بڑھنے لگی اور سردی بھی۔

 غرق ہونے یا ڈوب مرنے کو کہیں پانی بھی نہیں تھا۔ میرے گائیڈ کی چ چ چچ چچ کی فریکوئنسی بھی تیز ہو چکی تھی۔ اب کی بار وہ ’’چ‘‘ کے ساتھ چلیں نہیں بلکہ ’’چیتا‘‘ کہتا رہا تھا۔ اسے ڈر تھا یا مجھے ڈرا کر واپس لے جانا چاہتا تھا کہ یہاں چیتا بھی آ سکتا ہے اور میں کسی بھی ڈر کے زیر اثر نہیں آ رہا تھا۔ میں اپنے آپ میں نہیں تھا۔مجھے بھی ان برفانی دیواروں سے اب کون اتارتا۔ ہکلا تو مقامی تھا، وہ پھسلتا اور برف پر سلائیڈ بناتا جاتا۔ پھر نیچے پہنچ کر مجھے اشارے کرنے لگتا کہ میں بھی سلائیڈ لیتا نیچے آؤں۔ 

پہلے پہل تو میں شرمایا بھی، گھبرایا بھی، لیکن اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا، اور ویسے بھی آس پاس کون دیکھنے والا تھا کہ فنکار صاحب بچوں کی طرح کھلے میں برف پر سلائیڈ لے رہے ہیں، چنانچہ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ جھیل سیف الملوک سے بہہ کر آتے نالے کے ساتھ ساتھ چلتے ایک سرد آہ نکلی اور پانی کے کناروں پر بہتی نمزدہ ہَوا میں جذب ہو گئی۔ آنکھیں جلنے لگی تھیں۔ برف کے سفر اور تھکن کا اثر ہو گا شاید۔ واپسی کے سفر کی اداسی شاملِ حال بھی ہونے لگی۔

 گزر چکے اپنوں کی یاد بھی ستانے لگی تھی۔ ایسا لگنے لگا جیسے صبح سے اب تک صرف ایک ہی کیفیت رہی ہو۔ اداسی۔۔۔! میں جب بھی دور دراز کے سفر سے تھکا اپنے بستر پر پڑا اپنے بدن کو سہلاتا ہوں کہ جس میں جگہ جگہ سے ٹیسیں اٹھ رہی ہوتیں ہیں، اور ٹانگوں کے پٹھے کھنچے جا چکے ہوتے ہیں، تو جھیل سیف الملوک کا چاندنی نہایا منظر یاد کر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلنے لگتی ہے۔ ساری تکلیف بھول جاتی ہے۔

مہدی بخاری
 

Post a Comment

0 Comments