All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

جنگ ستمبر کے جذبے سے کالا باغ ڈیم بن سکتا ہے

     پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر دستخط ہوئے، جس کی رو سے راوی، ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے جبکہ جہلم، چناب اور دریائے سندھ پاکستان کے حصے میں آگئے۔اس معاہدہ کی رو سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کے پانی کو استعمال کرنے کا حق رکھتا تھا جبکہ پاکستان کو جہلم، چناب اور سندھ کا پانی اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا حق حاصل ہوا ۔

سندھ طاس معاہدہ میں بھارت کو دیے جانے والے دو دریاؤں ستلج اور بیاس سے پنجاب میں زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریاؤں تک محدود ہو گیا، لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ بھارت نے حیلے بہانے سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں شروع کردیں اور پنجاب سے گزرنے والے پاکستان کے حصے کے تین دریاؤں پر بھی نظریں گاڑ دیں۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1999ء میںدریائے چناب پر900 میگا واٹ کا ’’بگلی ہارہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ‘‘ تعمیر کرنا شروع کردیا جو 2004ء میں مکمل ہوگیا اور پھر 2007ء میں بھارت نے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کا کشن گنگا ڈیم بنانا شروع کردیا جو اب تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی سے پنجاب کو جو نقصان پہنچا سو پہنچا لیکن پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر ’’بھارتی تعمیرات‘‘ نے پانچ دریاؤں کی دھرتی ’’پنجاب‘‘ کو سرزمین ِ بے آب میں بدلنے کی بنیاد رکھ دی۔

بھارت کی اِن آبی سازشوں سے نمٹنے کیلئے پاکستانی ماہرین نے رائے دی کہ دریائے سندھ پر کالا باغ کے مقام پر بند بناکر دریائے ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا مداوا کیا جاسکتا ہے۔ کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ پر ڈیم بنانا ایک نہایت اچھی اور سود مند تجویز تھی، اس منصوبہ کی اہمیت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالا باغ بند سے تقریباً 3600 میگاواٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
 ماہرین نے اس منصوبہ کو نا صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ قرار دیا کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہوتی ہے۔لیکن پاکستان اور بالخصوص پنجاب کو مکمل طور پر بنجر دیکھنے کے آرزومند بھارت سے بھلا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا یہ منصوبہ کیسے ہضم ہوسکتا تھا!پاکستان کا یہ منصوبہ سامنے آتے ہی بھارت نے سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی مخالفت شروع کرادی ، جس کے بعد کالا باغ ڈیم کے خلاف اس قدر منفی پراپیگنڈا کیا گیا کہ پنجاب کے علاوہ باقی تین صوبوں کیلئے کالا باغ ڈیم کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنادیا گیا۔

کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ پیش ہوتے ہی پاکستان کے چاروں صوبوں خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو باہمی تلخی کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں نے اس منصوبہ کی تعمیر کیخلاف صوبائی اسمبلیوں میں متفقہ قراردادیں بھی منظور کیں اور سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ تب سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ حالانکہ پنجاب نے اس منصوبہ پر اپنے موقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا اور کالا باغ منصوبہ سے حاصل ہونیوالی وفاقی سطح کی آمدنی سے اپنا حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان بھی کیا ۔ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں ایک خالص تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا، جسکے بعد بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے پہلے دو ادوار میں یہ منصوبہ سیاسی رنگ میں رنگے جانے کے باعث مسلسل کھٹائی میں پڑا رہا۔

 دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی اعلان تو کیا کہ ’’وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ ڈیم تعمیر کر کے رہیں گے‘‘لیکن اس منصوبے کی پہلی اینٹ رکھنے کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اکتوبر 2013ء میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیلئے اِسی بھارتی فنڈنگ کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر جعفر اقبال نے الزام لگایا کہ ’’بھارت کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر سالانہ 12 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے؟اگر ہم نے کوئی اور ڈیم تعمیر نہ کیا تو آئندہ دس برسوں میں پاکستان کو انتہائی بدترین اور ناقابل تلافی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘‘۔ سینیٹر جعفر اقبال کے اس بیان پر پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان نے سینیٹ میں شوروغوغہ کرنا اور واویلہ مچانا شروع کردیا۔

قارئین کرام!! کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے کے پی کے میں نوشہرہ کے ڈوبنے اور سندھ میں زرعی زمینوں کے بنجر ہونے کا بہت پراپیگنڈا کیا جاچکا ہے، یہ ایسا منفی اور زہریلا پراپیگنڈا ہے کہ بعض اوقات اچھے بھلے پڑھے لوگ بھی اس پراپیگنڈا کی زد میں آخر بولنا شروع کردیتے ہیں کہ ’’چھوڑیں جی! یہ منصوبہ سیاست کی نذر ہوچکا ہے، ملک توڑنے سے بہتر ہے کہ یہ منصوبہ ترک کرکے دوسرے منصوبوں پر کام کیا جائے‘‘ لیکن یہ پڑھے لکھے عقل کے اندھے یہ نہیں بتاتے کالا باغ ڈیم نہیں تو پھر کون سا منصوبہ شروع کیا جائے جس سے پاکستان کی پانی اور بجلی کی ضروریات پورسی ہوسکیں!بھارت کی ’’ٹیرر فنانسنگ‘‘ پر پلنے والے عقل سے پیدل نام نہاد دانشور اور سیاستدانوں کے بھیس میں چھپے ’’مالی دہشتگرد‘‘ یہ نہیں بتاتے کہ آخر کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بن سکتا!قوم میں 1965ء والا جذبہ ایک بار پھر پیدا ہوچکا ہے۔ 1965 کی جنگ ستمبر کے جذبے سے کالا باغ ڈیم بھی بن سکتا ہے۔

پس کالم: خبر یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ سے بھاری فنڈز لے کر کالا باغ ڈیم کی مخالفت اور منفی پراپیگنڈا کرنیوالے ’’سیاستدانوں‘‘ اور ’’دانشوروں‘‘ کیخلاف قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ٹھوس ثبوت اکٹھے کرلیے ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف یہ ثبوت ملے ہیں، آنے والے دنوں میں اُنہیں بھی ’’ٹیرر فنانسنگ‘‘ کے تحت پکڑلیا جائے گا اور یہ ثبوت بھی ’’را‘‘ کی پاکستان میں مداخلت کے دیگر ثبوتوں کے ساتھ اقوام متحدہ سمیت عالمی فورموں پر پیش کیے جائیں گے۔

نازیہ مصطفیٰ

بہ شکریہ روزنامہ نوائے وقت

Post a Comment

0 Comments