All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

یورپ پناہ گزینوں کی توجہ کا مرکزکیوں؟

شام کے مقتل میں ساڑھے چار برسوں کے دوران خون کی ندیاں بہ چکیں، چارلاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ملک کی نصف سے زائد آبادی گھربار چھوڑ چکی توانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کسی نئے انسانی المیے کی بار بارنشاندہی بھی مگرعالمی جرگے داروں کی توجہ صرف دولت اسلامی "داعش" نامی ایک پراسرار جن کو بوتل میں بند کرنے پرمرکوز رہی۔ بہت کم کسی کی توجہ ان ایک کروڑوں شامی شہریوں کی طرف گئی جو خانہ جنگی اور اقتدار کی رسہ کشی کی چکیوں میں پستے ہوئے گھربار چھوڑکرملک سے نکلنے کے بعد سمندروں، جزیروں اور دوسرے ملکوں کی سرحدوں پربے یارو مددگارکھڑے ہاتف غیبی کوپکار رہے تھے۔

تُرکی کے ساحل پرنقل مکانی کے دوران حادثے میں جاں بحق ہونے والے شامی بچےایلان کردی کی تصویرنے وہ کام کر دکھایا جو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے بار بار کے واویلے سے بھی نہیں ہو پایا تھا۔ یورپ کی سرحدوں، جزیروں اور سمندورں میں پھنسے ہزاروں شامی اور فلسطینی پناہ گزینوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کی راہ ہموار ہوئی مگر کیا اس سے لاکھوں پناہ گزینوں کے مسئلے کا حل نکل آئے گا؟۔

شام اور یورپ کے درمیان ہزاروں میل کی مسافت ہے، مگر شام کے لٹے پٹے مہاجرین اپنی جانوں پر کھیل کرپوری ملکوں کی طرف نقل مکانی کیوں کررہے ہیں؟ اس کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک اہم سبب خلیجی اور دوسرے عرب ملکوں کی طرف سے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کرنا ہے۔ خلیجی ملک شامی مہاجرین کو اپنے ہاں آنے سے کیوں روک رہے ہیں، اس کے بعض ٹھوس اسباب ہیں، ناقدین کی ان اسباب کی طرف نظر کم ہی جاتی ہے۔

سعودی عرب میں اس وقت کئی ملکوں کے لاکھوں شہری تارکین وطن کے طورپر رہ رہے ہیں۔ان میں شام تیسرا بڑا ملک ہے جس کے پانچ لاکھ باشندے سعودیہ میں پناہ گزین ہیں۔ یمن میں جنگ چھڑنے کے بعد 10 لاکھ یمنی متاثرین سعودی عرب داخل ہوئے تو سعودی حکومت نے انہیں ویزوں اور سفری دستاویزات کے بغیراپنے ہاں قیام و طعام کی سہولت مہیا کی۔ خلیجی ریاستوں میں سلطنت آف اومان میں بھی شامی اور یمنی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ بحرین داخلی شورش کی بناء پرغیرملکیوں کو اپنے ہاں آنے کی خاص حوصلہ افزائی نہیں کرپایا۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے حسب ضرورت شامی پناہ گزینوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ شام میں خانہ جنگی کے بعد سیکڑوں پناہ گزین' یو اے ای' جا چکے ہیں۔ اس کے بعد خلیجی ممالک پر شامی پناہ گزینوں کے لیے دروازے بند کرنے کا اعتراض بلا جواز معلوم ہو تا ہے۔

مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ خلیجی ملکوں اور شام کے درمیان ماضی کی تلخ یادیں بھی شامی باشندوں کو ان عرب ملکوں سے دور کرنے کا موجب ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ شامی پناہ گزینوں کے خلیجی ملکوں میں اندھا دھند داخل ہونے سے وہاں پر سیکیورٹی کے سنگین مسائل بھی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، لیکن اس سب کے باوجود خلیجی حکومتوں نے شامی پناہ گزینوں کے مسئلے کے حل کے لیے عالمی اداروں سے تعاون میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی۔

شام سے یورپ کی طرف نقل مکانی کی ایک وجہ ترکی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ شامی پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بوجھ اس وقت ترکی نے اٹھا رکھا ہے۔ ترکی میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد 16 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ سنہ 2014ء کے آخرمیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بحالی پناہ گزین"یو این ایچ سی آر" نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیوں کے پچھلے ایک سال کے دوران یومیہ 42 ہزار 500 افراد بے گھر ہوتے رہے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کی 86 فی صد تعداد ترقی یافتہ ملکوں کے بجائے ترقی پذیر ممالک پر بوجھ بنتی رہی۔ سنہ 2014.2015ء کے دوران ترکی 15 لاکھ 90 ہزار شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا سب سے بڑا ملک قرار پایا تھا۔
عالمی ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار اس اعتبار سے اور بھی لرزہ خیز ہیں کہ پچھلے سال شام سے نقل مکانی کرنے والے کل افراد میں 51 فی صد 18 سال سے کم عمرکےلوگوں پر مشتمل ہے اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہ تمام افراد بچوں میں شمار ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے چار سال کےدوران ایک کروڑ 39 لاکھ لوگ جنگوں کے نتیجے میں اپنے گھر بار، شہر یا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے جب کہ پچھلے ایک عشرے میں مجموعی طورپر 51 ملین انسان بے گھر ہوچکے ہیں۔ شورش کا شکار ملکوں میں 38 ملین افراد "آئی ڈی پیز" کی شکل میں اپنے ہی ملکوں میں در بہ درکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

شام میں آئی ڈی پیز کی تعداد 70 لاکھ 60 ہزار، جمہوریہ کانگو میں 28 لاکھ، وسطی افریقا میں چار لاکھ 38 ہزار، جنوبی سوڈان میں 15 ملین،افغانستان میں 8 لاکھ ، مالی میں ایک لاکھ 55 ہزار، یمن میں پانچ لاکھ اور پاکستان میں آئی ڈی پیز کی تعداد آٹھ سے دس لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

ابتدائی سطور میں شامی پناہ گزینوں کی یورپ منتقلی کا تذکرہ ہوا۔ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر سمندر جیسے نہایت پرخطر راستوں سے یورپی ملکوں کو سفر شامی پناہ گزینوں کا خواب کیون بنتا جا رہا ہے۔ ماہرین اس کے بھی کچھ اسباب بتاتےہیں۔ لٹے پٹے شامیوں کا واسطہ ترکی اور پڑوسی ملکوں میں ان ہزاروں انسانی اسمگلروں سے پڑتا رہا ہے جوانہیں روشن مستقبل کا خواب دکھا دکھا کر یورپ لے جانے کی راہ ہموار کرتے رہے ہیں۔ جرمنی، اٹلی، یونان اور دوسرے ملکوں میں لاکھوں پناہ گزینوں کو سمویا جاسکتا ہے مگر کیا ان ملکوں کے پاس لاکھوں پناہ گزینوں کا بوجھ سہارنے کی گنجائش ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے کیونکہ یونان حال ہی میں ایک خطرناک معاشی حادثے کے بعد یورپی ملکوں کی بیساکھیوں پر کھڑا ہونے کی دوبارہ کوشش کررہا ہے۔ جرمنی بھی معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔

یعض یورپی تجزیہ نگار نوجوان پناہ گزینوں کی آمد کوان ملکوں کی معیشت کے لیے خوش کن خیال کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پناہ گزینوں کی شکل میں انہیں سستی لیبر حاصل ہوگی اور ابتری کا شکار صنعت کو بار دگرسہارا دینے کا موقع ملے گا۔ یہ تاثر کافی حد تک درست بھی ہے کیونکہ کئی یورپی ملکوں نے اب شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد انسانی ہمدردی کم اپنے معاشی فوائد زیادہ ہیں۔ یورپی مبصرین اپنے حکومتوں کو یہ تجاویز دے چکےہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے نوجوانوں، لیبر اور ہنرمندوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنے ہاں کام کا موقع دے ورنہ معاشی دیوالیہ پن صرف یونان یا جرمنی تک محدود نہیں رہے گا۔

مگر تمام یورپی ملکوں کا شامی پناہ گزینوں کےحوالے سے نقطہ نظریکساں نہیں۔ ہنگری، فرانس اور اٹلی جیسے ملکوں کا خیال ہے کہ شام سے آنےوالے پناہ گزین چونکہ مسلمان ہیں، اس لیے یورپی ملکوں میں عیسائی آبادی کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ ہنگری کی شدت پسند حکومت نے تودوسرے ملکوں سے متصل اپنی سرحد پر خار دار باڑ لگانا شروع کر رکھی تاکہ شامی پناہ گزین ہنگری میں داخل نہ ہو سکیں۔

اسرائیل بھی خوش

یورپ کی طرف نقل مکانی کرنے والے لاکھوں پناہ گزینوں میں ایک بڑی تعداد شام میں مقیم ان فلسطینی مہاجرین کی بھی شامل ہے جو پچھلے کئی عشروں سے پناہ گزین کے طورپر وہاں رہ رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی یورپ کی طرف نقل مکانی پر اسرائیل بھی خوش ہے کیونکہ شام سے ھجرت کرنے والوں میں ہزاروں فلسطینی پناہ گزین بھی شامل ہیں۔ اگر یہ فلسطینی یورپی ملکوں میں اقامت اختیار کرتے ہیں۔ انہیں وہاں نسبتا اچھا معیار زندگی ملتا ہے تو ان کے دیکھا دیکھی اردن اور لبنان میں مقیم فلسطینی پناہ گزین بھی یورپ کا رخ کریں گے۔ اس طرح مسئلہ فلسطین کے ساتھ ساتھ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور دوبارہ فلسطینی علاقوں میں آباد کاری کا مطالبہ ساقط ہوجائے گا۔ اگر یہ تاثر درست ہےتو اس کے مسئلہ فلسطین پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں

عبدالقیوم فہمید

Post a Comment

0 Comments