All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں تعلیمی بحران

گزشتہ پانچ سال کے دوران ہم کس طرح اس حال کو پہنچے کہ ایک طرف تو اٹھارویں ترمیم میں متعارف کرایا جانے والا آرٹیکل 25A کہتا ہے۔ ’’ریاست 5 سے 16 سال تک کے تمام بچوں کولازمی تعلیم کی مفت فراہمی یقینی بنائے گی۔‘‘ مگرآج ریاست پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اپنا منافع کم رکھتے ہوئے ، ارزاں نرخوں پر،شہریوں کو تعلیمی سہولتیں فراہم کریں۔پرائیویٹ اسکولوں کی فیس پر ہونیوالی گرما گرم بحث دوبنیادی سوال اٹھاتی ہے۔ 
ریاست اور طاقتور اشرافیہ کی ترجیحات میں تعلیم کیا درجہ رکھتی ہے؟ معاشی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے حکمراں جماعت، پی ایم ایل (ن) کا کیا تصور ہے؟

کیا اس پر کوئی جشن منایا جائے کہ آج پاکستان میں تعلیم کے مسلے پر بھی بحث کا آغاز ہوگیا ؟حکومت ِ پاکستان نے 2009ء میں ’’پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس‘‘ قائم کی تھی ۔ اس نے ملک میں تعلیم کی حالت کے جو خوفناک اعدادوشمار بتائے، اُس نے ہمارے سر شرم سے جھکا دیئے۔ بتایا گیا کہ کم و بیش پچیس ملین بچے اسکول نہیں جاتے ۔ 2011ء کو ’’تعلیمی سال‘‘ قراردینے کے باوجود اسکولوں میں داخلے کی شرح میں ایک یا دوفیصد کا اضافہ ہوپایا۔ پاکستان’’ ملینیم ڈیویلپمنٹ گول 2015ء ‘‘، جس کے تحت تمام شہریوں کو یونیورسل بنیادی تعلیم دی جائے گی، کے حصول میں ناکام ہوچکا ۔
 نہایت متحرک شخصیت، مشرف زیدی صاحب کی تنظیم ’’الف اعلان‘‘اور اس طرح کی دیگر تنظیموں نے تعلیم کو قومی پالیسی میں اولین ترجیح کا درجہ دینے کیلئے بھرپور مہم چلائی ہے۔ اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹس (ACER) ہمیں بتاتی ہیں کہ ایسے بچے جو خوش قسمتی سے اسکول جاتے ہیں، وہ بھی پڑھائی میں بہت کمزور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے گریڈ پانچ کے ایک تہائی طلبہ کی کتاب پڑھنے کی صلاحیت گریڈ دو کے طلبہ سے زیادہ نہیں۔ فیصل باری اور دیگر احباب سوچتے ہیں کہ اسکول جانیوالے ان ’’غیر تعلیم یافتہ‘‘نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

چنانچہ اس دور میں ، جبکہ پاکستان میں تعلیم پر بہت شدومد سے بحث کا آغاز ہوچکا ہےاور وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ صورت ِحال کا بذات ِ خود جائزہ لے رہے ہیںتو اصل معاملہ ہے کیا ؟ یہ معاملہ اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ اسکولوں کی طرف سے اپرمڈل کلاس طبقے سے بھاری بھرکم فیس وصول کرنے کا ہے۔ اس طبقے کا مطالبہ یہ نہیں کہ سرکاری تعلیمی شعبے کی حالت درست کی جائے کیونکہ نجی تعلیمی شعبہ ان کا اصل نہیں بلکہ بہ امرمجبوری انتخاب بنا تھا،بلکہ یہ طبقہ اسی نجی شعبے میں ہی اپنے بچوں کو بھیجے گا ، اس کی صرف اتنی خواہش ہے کہ ان پر فیسوں کا بوجھ قدرے کم ہوجائے۔ 
کیا یہ غیر معمولی بات نہیں کہ خوشحال طبقے کی سوچ کے مطابق اچھی تعلیم دینے کی ذمہ داری ریاست کی نہیں، نجی شعبے کی ہے؟ دوسری طرف تعلیم ، صحت اور دیگر شہری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کوئی بھی ٹیکس ادا کرنے کیلئے تیار نہیں، لیکن پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو قائل کرے کہ اُنہیں یہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی بشرطیکہ وہ ٹیکس ادا کریں؟
  ریاست نے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیکر تباہ کردیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں سرکاری تعلیمی شعبے میں آنے والے زوال کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا جس میں نجی تعلیمی شعبے کو قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ 

اُس وقت سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد، جن کا تعلق مڈل اور اپرمڈل کلاس سے ہے، کی عمر چالیس سے پچاس سال کے درمیان ہے۔ انکے بچے اب پرائیویٹ اسکولوں میں جاتے ہیں ۔ چنانچہ اگر سرکاری تعلیمی شعبہ ختم ہوچکا تو کیا کیا جائے؟ کیا اب ریاست رابن ہڈ ( افسانوی کردار جو امیروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتا تھا) بن کر مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کو مجبور کرے کہ وہ کم فیس لیکر تعلیم دیں؟کیا تمام اپرکلاس، پیشہ ورماہرین اور سرکاری ملازم ان پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوانے کی اسطاعت رکھتے ہیں؟

یہ دولت کی تقسیم یا پرواگریسو ٹیکس کے نفاذ سے معاشی ہمواری لانے یا تمام شہریوں کو ارزاں نرخ پر تعلیم فراہم کرنے کی بحث نہیں ۔ یہ دراصل ایک ہی طبقے کے درمیان ہونے والی لڑائی ہے۔ اس میں فریقین میں سے کوئی بھی مظلوم نہیں ،دونوں ہی استحقاق یافتہ ہیں، لیکن پرائیویٹ تعلیم کے ہوشربا نرخوں نے ایک طبقے کو بے دم کردیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پچاس فیصد پاکستانی اپنے بچوں کو نجی شعبے کے تحت چلنے والے اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔ تاہم تمام پرائیویٹ اسکول یکساں مہنگے نہیں۔ ان کی فیس چند سوروپے سے لیکر چند ہزارڈالروں تک ہوتی ہے۔ اس شعبے میں انتہائی شدید مسابقت پائی جاتی ہے، جبکہ مواقع کی بھی کمی نہیں۔ ریاست نے شہروں میں تعلیمی اداروں کیلئے کوئی جگہ مختص نہیں کی ہوتی۔ اربن پلاننگ کے فقدان کی وجہ سے کہیں بھی اسکول کھولے جاسکتے ہیں۔ ریاست پرائیویٹ تعلیمی شعبے کو کوئی سہولت نہیں دیتی۔ اس کے باوجود یہ شعبہ پھیلتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور سرکای شعبے کا زوال ہے۔

 اگراس وقت پچیس ملین بچے اسکول نہیں جارہے اور ملک کی آبادی کی اوسط عمر تیئس سال ہے اور اگلے تیس برسوں تک آبادی تین سوملین ہوجائے گی تو ان تمام بچوں کو تعلیم کون دے گا؟ تعلیمی شعبے میں کس قسم کی سرمایہ کاری درکار ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی تعلیمی ضروریات پوری ہوسکیں؟سب سے اہم بات، اس وقت پی ایم ایل (ن) کا تعلیمی وژن کیا ہے؟

موجودہ حکومت کے پاس تعلیمی شعبے میں طلب اور رسد کے بڑھتے ہوئے فرق کو دور کرنے کے لئے کوئی پالیسی نہیں ، یہ صرف زبردستی نرخ طے کرکے اپنے شہری ووٹروں کو وقتی طور پر خوش کرنے کی کوشش میں ہے۔ بحث کا موضوع یہ نہیں کہ پرائیویٹ شعبہ جتنا چاہے منافع کمالے، بلکہ ہماری اشرافیہ کا تصورِحکمرانی، معیشت اورنجی شعبے میں ریاست کی مداخلت ہے۔کیا شہریوں کو بنیادی اشیااور سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے یا نجی شعبے کی؟ظاہر ہے کہ بنیادی ذمہ داری تو ریاست کی ہے۔ 

اس نے عوام کو بنیادی ضروریات اور جان ومال کا تحفظ فراہم کرنا ہوتاہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعدریاست نے طلبہ کو تحفظ دینے سے اپنی معذروی ظاہر کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو مجبور کیا کہ اپنی دیواریں بلندکریں، سیکورٹی کیمرے نصب کریں،خاردارتار اور لوہے کے جنگلے لگائیں اور مسلح گارڈ متعین کریں۔ ایسا کرتے ہوئے اداروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ یہ تمام اخراجات طلبہ کو منتقل کرنے کی بجائے خود برداشت کریں۔
 
  موجودہ حکومت نے سیکورٹی سروسز پر پندرہ فیصد ٹیکس عائد کردیا۔ اس سے پرائیویٹ سیکورٹی کے اخراجات میں اضافہ ہوگیا۔مفت تعلیم ، صحت، انصاف اور سیکورٹی کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری تھی لیکن ریاست نے اپنے ہاتھ کھڑے کردیئے۔ پیدا ہونے والے خلاکی وجہ سے جب نجی شعبہ آگے آیا تو ریاست ان کی فیس طے کرنے کے لئے کھڑی ہوگئی۔ کیا یہ اب پرائیویٹ اسپتالوں ، وکلا اور سیکورٹی کی بھی فیس خود ہی طے کرے گی؟ تو پھر دیگر بزنس بھی اسی دائرے میں آتاہے، ریاست پھر شوگرملوں، اسٹیل ملوں، پولٹری، سیمنٹ وغیرہ کے منافع کا خود ہی تعین کیوں نہیں کرتی؟اگر ہم پر سوشلسٹ بننے کا بھوت سوار ہے تو پھر وزیر ِاعظم آگے بڑھ کر خود اپنے خاندان کے بزنس کے منافع میں کمی کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ایسا کرنے سے ایک اچھی مثال قائم ہوگی اور دوسرے بھی ایسا کریں گے۔

آئین کا آرٹیکل 18 فری مارکیٹ اکانومی کی بات کرتا ہے۔ا س سے پہلے ہم ادارے قومیانے کا خوفناک تجربہ کرچکے، تو کیا اب پھر ہم اُسی راستے پر چل رہے ہیں؟ موجودہ حکمرانوں سے بہتر کاروبار کو کون بہتر سمجھ سکتا ہے؟ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پالیسی کے کیا مضمرات ہوںگے۔ اس وقت ملک کوتعلیمی بحران کا سامنا ہے۔ اگلے چند ایک عشروں میں اس میں بے پناہ سنگینی آئے گی۔ ہمیں اس کے کسی حقیقی حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم ریاست کی مداخلت سے اسکولوں کی فیس کم کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں، اس سے صرف ایک غلط روایت قائم ہوجائے گی۔ 
 
بابر ستار

بہ شکریہ روزنامہ جنگ 

Post a Comment

0 Comments