All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

وہ اپنے خواب اپنے ساتھ ہی لے گیا

ہفتے کی نصف شب ، جنرل حمید گل کے انتقال کی خبرآئی اور دُکھ کی گہری لہر رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا

فسردگی ہے کہ جاں تک اُترتی جاتی ہے

انسانی نفسیات بھی دلچسپ ہے۔ آپ کسی سے محبت کرتے ہیں، اتنی شدید محبت ، جو عقیدت میں ڈھل جاتی ہے لیکن ہم جیسے بھی ہوتے ہیں، جن کی محبت اور عقیدت اندھی نہیں ہوتی۔ انہیں اپنے ہیروسے شکایات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ ایک عرصے تک انسان اس ’’بت‘‘ کی خود ہی حفاظت کرتا رہتا ہے لیکن تابکے؟ آخر مایوسی انتہاکو پہنچ جاتی ہے اور بُت دھڑام سے گرپڑتا ہے لیکن جنرل حمید گل کی وفات کی خبر نے ان سے متعلق تمام شکایات کو ایک طرف دھکیل دیا تھا۔ ان کی زندگی کے روشن پہلو جگمگا اُٹھے تھے۔ قدرت ان پر مہربان تھی۔

اپنے کیریئر کے آخری برسوں میں ان کی شہرت (اور ایک بڑے حلقے میں عقیدت کے درجے تک پہنچی ہوئی محبت اور مقبولیت بھی) نکتہ ٔ عروج پر تھی۔ عالمی ذرائع ابلاغ بھی انہیں بے پناہ اہمیت دیتے ۔ اِن کا شمار جہادِ افغانستان کے ہیروزمیں ہوتا حالانکہ وہ اِس جہاد کے بانیوں میں شامل نہیں تھے (جسے ایک دور میںاُس عصر کا اُم الجہاد بھی قرار دیا گیا کہ اس کے نتیجے میں کتنی ہی مظلوم اور مغلوب قوموں میں ظالم اور غاصب کے خلاف جدوجہد کا جذبہ پیدا ہوا تھا)۔ وہ 1987ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ بنے جب جہاد اپنے نتائج مرتب کرچکا تھا۔ گوربا چوف اس سے دوسال قبل افغانستان کو سوویت یونین کے لئے ’’رستا ہوا ناسور‘‘ (Bleeding wound) قرار دے چکے تھے۔ کریملن ، افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلاء کا فیصلہ کرچکا تھا۔ جنیوا مذاکرات میں اب اس کی تفصیلات طے پانا تھیں۔
سوویت یونین کے خلاف جہاد کے بانیوں میں یوں تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے کہ استاد برہان الدین ربّانی اور انجینئر گلبدین حکمت یار سمیت افغان جہاد کے بعض قائدین خود بھٹو صاحب کے دور میں پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ سردار داؤد نے بھٹو صاحب کے بعض باغیوں کو اپنی پناہ میں لے لیا تو سردار داؤد کے باغیوں کو بھٹو صاحب نے پاکستان میں پناہ دے دی۔ پھر سردار داؤد کی پاکستان سے قربت ، پاک افغان تعلقات کا ایک نیا باب تھا۔ اپریل 1978ء میں روس نواز افغان انقلابیوں کے ہاتھوں داؤد کا قتل ، نور محمد ترہ کئی کی انقلابی حکومت کا قیام ، پھر ان ہی انقلابیوں کے ایک دھڑے کے ہاتھوں ترہ کئی کا قتل اور حفیظ اللہ امین کی تخت نشینی اور کچھ عرصے بعد سوویت فوجوں کی افغانستان میں براہِ راست مداخلت، امین کا قتل اور روسی ٹینکوں پر بیٹھ کر آنے والے ببرک کارمل کی کٹھ پتلی حکومت کا قیام، کابل میں ہونے والے پے در پے واقعات تھے افغانستان کے پڑوس میں پاکستان جن سے براہِ راست متاثر ہورہا تھا۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد نے تو عالمی سطح پر زلزلے کی کیفیت پیدا کردی تھی۔

پاکستان کی ایک سرحد پر ہندوستان کی صورت میں ایک ’’منی سپر پاور‘‘ موجود تھی اور شمال مغربی سرحد پر ایک سپر پاور آکر بیٹھ گئی تھی، گرم پانیوں تک رسائی جس کی صدیوں پرانی خواہش تھی، ایک ایسا خواب، جو کمیونسٹ انقلاب سے بھی پہلے کریملن کے زار حکمران بھی دیکھتے چلے آئے تھے۔ افغانستان میں مزاحمت شروع ہوچکی تھی اور پاکستان کے لئے فیصلے کی گھڑی آپہنچی تھی۔تب پاکستان میں فوجی حکومت تھی اور فیصلے کا سارا بوجھ اسی کو اُٹھانا تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے افغان مزاحمت کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو پڑوسی ایران اور عرب ریاستوں کے علاوہ امریکہ اور مغربی یورپ سمیت تما م آزاد دُنیا کی تائید و حمایت حاصل تھی۔ ضیاء الحق کی طرف سے کارٹر حکومت کی 40 ملین ڈالر کی پیشکش کو مونگ پھلی قرار دے کر مستردکردینا بھی اسی ابتدائی دور کا واقعہ تھا، پھر ریگن آ گیا۔

جہاد کے آغاز کو دو، ڈھائی سال کا عرصہ ہوچکا تھا جب امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا، ان دو بنیادی شرائط کے ساتھ کہ امریکیوں کا افغان مجاہد تنظیموں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوگا۔ امریکی امداد براہِ راست پاکستان کو ملے گی اور کسی جہادی تنظیم کو، کتنا حصہ ملنا ہے، یہ فیصلہ بھی پاکستان خود کرے گا۔ پاکستان کی ایک حساس ایجنسی اس جہاد کا اہم حصہ تھی، ضیاءالحق کے معتمد جرنیل اختر عبدالرحمن جس کے سربراہ تھے۔ 1987ء میں محمد خاں جونیجو وزیراعظم تھے، جب اختر عبدالرحمن کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنادیا گیا اور جنرل حمید گل ان کے جانشین قرار پائے، تقدیر میں جن کے لئے جہاد افغانستان کے ہیروز میں شمار ہونا لکھا تھا۔ 17 اگست کے سانحۂ بہاولپور کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت ایک نئے چیلنج سے دوچار تھی۔ وزیراعظم جونیجو کی برطرفی کے ساتھضیاءالحق نے اپنے ہی تعمیر کردہ اس سیاسی انتظام کو مسمار کر دیا تھا۔

اب بے نظیر وطن واپس آچکی تھیں۔ 16 نومبر 1988ء کے انتخابات کا اعلان خودضیاءالحق کر گئے تھے۔ اینٹی پیپلز پارٹی عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ مشکل ٹاسک جنرل گل کے سپرد ہوا۔ اس اقدام کے جواز میں جنرل کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ اس طرح انہوں نے ملک میں سیاسی توازن قائم کرنے کا اہتمام کیا۔ جنرل گل ملت اسلامیہ کی عظمت کے خواب دیکھتے اور نوجوانوں کو بھی یہ خواب دکھاتے۔ جنرل بیگ کے بعد وہ آرمی چیف کیوں نہ بن سکے اور اپنے نئے باس، آصف نواز کے ساتھ ان کی کیوں نہ بن سکی، یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعدانہوں نے ’’تحریک ِاتحاد ‘‘ کی بنیاد رکھی، لیکن یہ چند فکری و نظریاتی اجتماعات سے آگے نہ بڑھ سکی لیکن وہ مختلف فورمز پر اپنے افکار و نظریات کا پرچار کرتے رہے۔

پاکستان میں ’’سافٹ ریوولیوشن ‘‘ بھی ان کا نعرہ تھا، جس کی تشریح و تفہیم ہم جیسے کج فہموں کے پلّے نہ پڑی۔ وہ جمہوریت کو خلافِ اسلام قرار دیتے، (حالانکہ پاکستانی جمہوریت مغرب کی مادرپدر آزاد جمہوریت کے برعکس قراردادِ مقاصد کی پابند ہے)۔ وہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کے وجود کے بھی منکر تھے۔ ان کے یہی افکار و نظریات ہمیں ان سے دور کرنے کا باعث بنتے گئے، تاہم کبھی کبھاران سے فون پر رابطہ ہوجاتا۔ وہ شاید ہم سے مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئے تھے۔دوستوں کی کسی محفل میں اِن کا ذکر ہوتا، تو ہم ٹال جاتے۔

اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل جاتے ہیں
کتنی رغبت تھی ترے نام سے ، پہلے پہلے

لیکن ہفتے کی شب ان کے انتقال کی خبر نے اِن سے تمام شکوے شکایات ختم کر دیئے۔ اب ان سے وابستہ خوشگوار یادوں کا ہجوم تھا۔ اتوار کی شام ریس کورس پارک راولپنڈی میں اِن کے جنازے پر ان کے فوجی رفقاء کے علاوہ کثیر تعداد ان لوگوں کی تھی، جنہیں حمید گل نے خواب دیئے تھے۔ وہ اپنے خوابوں کے ساتھ اگلے سفر پر روانہ تھا، اور اِسے الوداع کہنے ہم بھی وہاں موجود تھے۔

رؤف طاہر
بشکریہ روزنامہ "جنگ

Post a Comment

0 Comments