All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کردوں کی تاریخ پر ایک نظر

آج ایسے موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں جس پر چند سال قبل ترکی میں بیٹھ کر کچھ لکھنا ممکن ہی نہ تھا لیکن جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ( آق پارٹی) کے 2002ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد حالات نے پلٹا کھانا شروع کردیا اور ترکی میں آباد کردوں نےنا صرف ترکی بلکہ دنیا بھر میں اپنی آواز پہنچانا شروع کردی۔ تین کروڑ پچھتر لاکھ کردوں کی اکثریت ترکی،عراق، شام اور ایران کے ان علاقوں میں آباد ہے جو کردوں میں کردستان کے نام سے مشہور ہے۔ اسکے علاوہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کردوں کی آبادی ایک کروڑ ہے۔ کرد ساتویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ کردوں میں یزدانی اور یزیدی عقائد کے کئی فرقے ہیں لیکن اکثریت ان کی سنی شافعی عقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔

ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانے پر زبردستی خراسان سےجلا وطن کردیا تھا اور پھر انیس سو چھیالیس میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے’’ مہا آباد جمہوریہ‘‘ کے نام سے پہلی کرد مملکت قائم کی جو جلد ہی زمین بوس ہو گئی اور اسکے بانی قاضی محمد کو کھلے عام پھانسی دیدی گئی۔ رضا شاہ پہلوی دور میں ایران میں کردی زبان بولنے پر پابندی عائد کردی گئی اور 1979ء میں آیت اللہ خمینی نے کردوں کیخلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے کردوں کی کارروائیوں کو مکمل طور پر کچل دیاا۔ اسی طر ح 1960ء تا 1975ء تک شمالی عراق میں کردوں نے مصطفیٰ برزانی (مسعود برزانی کے والد) کی قیادت میں اپنی جدو جہد کے نتیجے میں خود مختاری حاصل کی لیکن 1991ء میں صدر صدام نے اس علاقے پر اپنی مکمل حاکمیت قائم کرتے ہوئے کردوں پر ایسے ظلم ڈھائے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
اس دوران عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی لیکن کردوں کیخلاف کارروائی جاری رہی اور جنگ کے خاتمے پرحکومتِ عراق نے 1988ء میں کردوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے انکے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میںہزاروں کی تعداد میں کرد مارے گئے۔ دوسری صلیبی جنگ کے عظیم فاتح حکمران صلاح الدین ایوبی ( جو کرد نژاد ہیں کا تعلق بھی صدام حسین کے آبائی شہر تکریت سے تھا ) جنہوں نے بارہویں صدی میں تیونس سے لیکر بحیرہ کسپئین کے ساحل تک وسیع مملکت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے بعد کسی بھی کرد رہنما کو کردوں کیلئے اپنی آزاد مملکت قائم کرنے کو موقع ہی نہ مل سکا۔ترکی کے مشرقی علاقے ’’کوہ آعری‘‘ میں حضرت نوح علیہ اسلام کی کشتی اور اور ان کی دس گز لمبی قبر کے نشان کی وجہ سے کرد باشندوں کا تعلق حضرت نوح علیہ سلام کی اولاد سے بتایا جاتا ہے۔

انیس سوپندرہ اور انیس سو اٹھارہ میں ترکی کے کردوں نے سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار انہیں کچل دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو اس زمانہ کے امریکی صدر وڈرو ولسن نے کردوں سے ان کی آزاد مملکت کے قیام کا وعدہ کیا اور 1920ء کے معاہدہ سیور میں ایک آزاد کرد مملکت کی تجویز بھی شامل کرلی گئی لیکن برطانیہ فرانس اور ترکی نے اس تجویز کو ناکام بنادیا ۔سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطی میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔
ترکی کی جنگ نجات کے دوران مصطفی ٰکمال اتاترک نے کردوں کیساتھ مل کر اپنی آزادی کی جدو جہد کو جاری رکھا اور کردوں کا اعتماد بھی حاصل کر لیا لیکن جدید جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد 1925ء میں شیخ سعید کی قیادت میں کردوں نے بغاوت کھڑی کردی لیکن حکومتِ ترکی نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا اور پھر 1937ء میں بھی کردوں نے تُنجے لی میں شورش برپا کردی جسے شدید بمباری سے دبا دیا گیا اور اُس وقت سے کردوں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی گئی اور ان کے تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور انھیں ’’پہاڑی ترک‘‘ قرار دیکر ترک معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن کردوں نے اپنے تشخص کو قائم رکھا ۔

آق پارٹی کے دورِ اقتدار سے قبل کردی زبان میں کھلے عام بات کرنا ، گانے گانا یا اشاعت و نشریات کا سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ سرکاری اداروں میں کردی زبان میں بات چیت کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ۔ اس بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگرکسی کرد باشندے سے کوئی جرم سرزردہوجاتا اور اسے سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتا تو جیل میں اسے ملنے کیلئے آنے والے والدین صرف اسی صورت میںبات چیت کرسکتے جب یہ سب ترکی زبان بولتے ہوں۔ لیکن آق پارٹی جس کے کئی ایک اراکین خود بھی کرد ہیں نے ان پابندیوں کو ختم کروانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ۔

 آق پارٹی نے قومیت پسند جماعتوں کے شدید دبائو کے باوجود کردوں کے تمام مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ دینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان کے دور میں کردوں کے جتنے مسائل حل ہوئے ہیں شاید اس سے قبل ان کے حل کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہ تھا بلکہ اس بارے میں وزیر اعظم ایردوان نے (صدر بننے سے قبل) بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ" ہمیں کردوں کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے چاہے کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے ہم یہ نقصان اٹھانے کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہم اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کرنا چاہتے ہیں۔"

 حکومت ترکی اور دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے درمیان طے پانے والے فائر بندی کے سمجھوتے پر دو سال تک عمل درآمد بھی ہوتا رہا لیکن 7 جون 2015ء کے انتخابات سے قبل آق پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے ’’کرد نام کا کوئی مسئلہ موجود نہیں ہے‘‘دیئے جانیوالے بیانات سے آق پارٹی کو 2015ء کے انتخابات میں اسکا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا اور ترکی کی تاریخ میں پہلی بار کردوں کی پارٹی، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی  دس فیصد ووٹ حاصل کرنے کی حد کو عبور کرتے ہوئے با آسانی پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے پارلیمنٹ کی 80 نشستیں بھی حاصل کر لیں جبکہ ترکوں کی قومیت پسند جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی  بھی صرف 80 نشستیں ہی حاصل کر سکی۔

 ان دونوں جماعتوں میں سے  کے بارے میں ’’دہشت گردی سے پروان چڑھنے والی جماعت‘‘ اور  کے بارے میں " شہیدوں کے لہو سےپروان چڑھنے والی جماعت" کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر ترک اور کرد قومیت پسندوں کی نمائندہ ہیں اور ان دونوں جماعتوں ہی کی بدولت ملک میں قومیت پسندی کو ہوا مل رہی ہے ۔ آق پارٹی نے 2015ء کے انتخابات میں پہنچنے والے نقصان اور کی جانے والی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں  پر اپنے دبائو میں بھی اضافہ کر لیا ہے۔

حکومت نے اس سلسلے میں یکطرفہ طور پر فائر بندی کا خاتمہ کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم  کے شمالی عراق میں موجو د ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا جبکہ اس دوران دہشت گرد تنظیم  نے بھی ملک کے مختلف حصوں میں فوجیوں اور حفاظتی قوتوں کے اہلکاروں کو شہید کرنے اور نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب آق پارٹی  کے اراکین کی  ختم کروانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس پر  کے چیئرمین صلاح الدیندیمیر تاش نے بیان دیتے ہو ئے کہا ہے کہ ’’آق پارٹی سول بغاوت کی راہ ہموار کر کے اپنی سیاسی ساکھ کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے تاکہ قبل از وقت انتخابات میں  کو پارلیمنٹ سے دور رکھتے ہوئے اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو دوبارہ حاصل کیا جاسکے۔ 

ڈاکٹر فرقان حمید

بشکریہ روزنامہ "جنگ

Post a Comment

0 Comments