All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاک بھارت آبی جنگ

گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ایک بڑے تھنک ٹینک پاکستان ہاؤس کی جانب سے پانی و بجلی کے بحران پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں انرجی کے ماہرین، ممتاز صنعتکاروں اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کیپٹن (ر) ہاشم رضا زیدی نے اس اہم موضوع پر تقاریر کیں۔ پاکستان ہاؤس تھنک ٹینک کے چیپٹرز پاکستان کے علاوہ کوپن ہیگن اور برلن میں بھی قائم ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے اہم ملکی عالمی مسائل پر کانفرنسوں کا انعقاد کر کے حکومت کو سفارشات بھیجتے ہیں۔ تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر جنرل رانا اطہر جاوید جو ہماری نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے المنای بھی ہیں، نے مجھے اس کانفرنس میں خصوصی طور پر خطاب کیلئے مدعو کیا تھا،۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، نیشنل سکیورٹی اور اہم قومی پالیسیاں بنانے میں حکومت کو اعلی سطح پر اہم سفارشات پیش کرتی ہے اور پالیسی میکرز ان سفارشات کو نہایت اہمیت دیتے ہیں۔

میں نے بھی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے المنائی کا ممبر ہوں جس نے گزشتہ دنوں کراچی میں امن اور سکیورٹی پر کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس سے کور کمانڈر کراچی لیفٹنٹ جنرل نوید مختار نے اہم خطاب کیا تھا۔ پاکستان ہاؤس کی پانی و بجلی کے بحران پر منعقدہ کانفرنس میں میں نے اپنے خطاب میں شرکاء کو بتایا کہ 1992ء میں اسٹاک ہوم میں ہونے والی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس میں معروف مغربی دانشور لیسٹر آر براؤن نے کہا تھا کہ مشرق وسطی میں آئندہ جنگین تیل کے بجائے پانی پر ہوں گی لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اب قیاس اارائیاں ہو رہی ہیں کہ برصغیر میں آبی جارحیت اور ہمسایہ ممالک سے آبی تنازعات پاکستان اور بھارت کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا سکتے ہیں.

 پاکستان اور بھارت کے مابین 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت بھارت نے تین دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا تصرف تسلیم کیا تھا۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کو کامیاب معاہدہ قرار دیا جا سکتا ہے جو دو جنگوں اور 2002ء کے کشیدہ حالات کے باوجود بھی قائم رہا تاہم بھارت کا پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے سب سے بڑا ہدف سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرنا ہے جسکے لیے وہ امریکہ و نیٹو ممالک کی اشیرباد سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو پانی روک لیتا ہے لیکن بارشوں کے موسم میں بھارت اسی پانی کو چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔
بھارت یہ عمل گزشتہ کئی سالوں سے کر رہا ہے مگر سرکاری سطح پر اس بات سے انحراف کرتا رہا ہے کہ اسکے چھوڑے گئے اضافی پانی سے پاکستان میں سیلاب آتے ہیںَ اسی سلسلے میں پاکستان بگیہار کی تعمیر کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے لیکن بھارت کا یہ کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت دریاؤں کے پانی کو کچھ عرصے کیلئے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے لہذا بگیہار ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خاف ورزی نہیں۔

بھارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں میٹھے پانی کے ڈیموں کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی بجائے اسے سمندر میں بہا دیتا ہے لہذا بھارت کا یہ حق ہے کہ وہ ضائع ہونے والے پانی کیلئے ڈیم بنا کر اسے اپنے استعمال میں لا سکے اور ضرورت پڑنے پر پاکستان کو بھی فراہم کر سکے۔ اس سنگین تنازعات کی بنیاد پر مختلف تھنک ٹینکس جو ایٹمی سیاسی یا ممکنہ ایٹمی جنگوں کے امکانات پر ریسرچ کر رہے ہیں، بھی پاک بھارت آبی تنازعات کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خدشات بتا رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کو اللہ تعالیٰ نے کئی بڑے دریاؤں سے نوازا ہے جسکے باعث جنوبی ایشیاء میں وسیع پیمانے پر اناج پیدا ہوتا ہے اور اس خطے کا زرعات کا دارومدار پانی پر پے۔ پاکستان کے پاس ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 11.55 ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں، بھارت 120دن تک جبکہ امریکہ 900 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 اس طرح پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی فی کس مقدار 150 کیوبک میٹر ، چین میں 2200 کیوبک میٹر، آسٹریلیا اور امریکہ میں 5000 کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے دستیاب آبی وسائل کا صرف 7% پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40% ہے جسکی وجہ سے پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی پوری دنیا میں سب سے کم یعنی کیوبک میٹر ہے جبکہ امریکہ میں فی کس پانی کی دستیابی 6150 کیوبک میٹر ہے ۔

یوں پاکستان اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہے جبکہ کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیری لاگت صرف 25 ارب ڈالر ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے آج پاکستان بجلے کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور ہم سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے بجائے مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جس سے ہمارا ملک کا انرجی مکس خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں نہایت مہنگا ہے ۔

حال ہی میں میرے ایک دیرینہ دوست اور نیپرا کے چیئرمین بریگیڈیئر طارق سدوزئی سرکاری دورے پر کراچی تشریف لائے۔ دوران ملاقات انہوں نے وفاقی حکومت اور نیپرا کی بجلی کی ترجیحات کے حوالے سے مجھے بتایا کہ حکومت کی پہلی ترجیح پانی سے زیادہ سے زیادہ ہائیڈرو بجلی پیدا کرنا ہے جس کے خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں وسیع ذرائع موجود ہیں جبکہ حکومت کی دوسری ترجیح کوئلے سے بجلی کے منصوبے ہیں جس میں ابتداء میں امپورٹ کیا گیا کوئلہ استعمال کیا جائے گا لیکن ان پلانٹس کی ٹیکنالوجی ایسی ہوگی کہ بعد میں تھر کا مقامی کوئلہ بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے حکومت کی تیسری ترجیح ایل این جی سے چلنے والے بجلے گھر ہیں جبکہ چوتھے نمبر پر متبادل ذرائع یعنی ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ہیں جنکی پالیسیاں اور ٹیرف کیلئے نیپرا میں پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور ایم بی اے پوری دنیا کا ڈیٹا سامنے رکھ کر ملکی مفاد میں پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔

 حکومت کی ترجیح مختصر المیعاد منصوبے ہیں تاکہ موجودہ دور حکومت مین بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے کراچی میں فیڈریشن آف پاکساتن چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ایکسپورٹ ٹرافی اوارڈ میں بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ 2018ء تک ملک سے بجلی کا بحران اسپیشل میرٹ ٹرافی ایوارڈ FPCCI ختم کر دیا جائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سال بھی ہماری کمپنی نے مسلسل 16ویں بار وزیر اعظم سے وصول کیا لیکن موجودہ حالات میں ملک میں پانی اور بجلی کی کمی سے صنعتکاری کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

نئی صنعتیں نہیں لگ رہیں جسکی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ جمود کا شکار ہے اور ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقو پیدا نہیں ہو رہے جو ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال کا سبب بن رہے ہیں۔ کراچی میں پانی کی قلت ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے اور کراچی کے صنعتکار اور ایکسپورٹرز اپنی صنعتوں کیلئے ٹٰنکر مافیا سے کروڑوں روپے سالانہ کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں جس سے بنائے گئے فیبرک کی کوالٹی بھی غیر معیاری ہوتی ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2 کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی کیلئے 1100 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے لیکن واٹر بورڈ شہر کو نصف 550 ملین گیلن یومیہ فراہم کر رہا ہے جسکی وجہ سے عوام اور صنعتکار اپنی ہی پانی ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ 

کراچی میں ڈی سلینیشن پلانٹس کے ذریعے سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ خلیجی ممالک میں کیا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیمز بنانے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور ایک وقت میں سینکڑوں ڈیم تعمیر ہوتے ہیں تاکہ آبادی بڑھنے کی صورت میں اضافہ پانی اور بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے لیکن پاکستان میں کئی دہائیوں سے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا لہذا حکومت کو ملک میں بجلی اور پانی کی کمی دور کرنے کیلئے ترجیحی بنیاد پر پانی کا ذخیرہ کرنے کیلئے کئی ڈیم بنانے ہوں گے جن سے نہ صرف عوام اور زراعت کیلئے پانی دستیاب ہو سکے گا بلکہ انکے ذریعے سستی بجلے پیدا کر کے بجلی کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بہ شکریہ روزنامہ  جنگ

Post a Comment

0 Comments