All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

تحریرکیسے لکھیں

گزشتہ دنوں مجھے ایک شناسانے جو ایک نجی ٹی وی چینل میں اکاؤنٹینٹ کے عہدے پر فائز ہیں ان کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ مجھے بھی کچھ لکھنے کا شوق ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ایک اچھا مضمون یا کالم کیسے تحریر کیا جاتا ہے میں اس حوالے سے قطعی لاعلم ہوں۔ آپ چونکہ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں، اس لیے میری خواہش ہے کہ آپ اس پر ضرور قلم اٹھائیں تاکہ میں اور میرے جیسے دیگرادب دوست اور مطالعہ کی طرف راغب نوجوان اس سے مستفید ہوسکیں اور معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ امید ہے کہ آپ اس پر ضرور غور فرمائیں گے۔

ان کی جانب سے کالموں کی پسندیدگی کا شکریہ ۔ خود میرے حلقہ احباب میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مضمامین یا کالم لکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ میں نے اپنی دانست کے مطابق کچھ نکات تحریر کیے ہیں جن کو ذہن میں رکھا جائے تو ایک اچھا اور معیاری مضمون یا کالم لکھا جاسکتا ہے۔ فن تحریر کے میدان میں آنے سے قبل آپ کو تین امور پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے۔

سب سے پہلے آپ کو علم حاصل کرنا ہوگا۔ علم سے مراد کسی شے کا فہم ہے، فلسفے میں علم کسی موضوع کے متعلق مربوط، مکمل اور صحیح واقفیت کا نام ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو انسانی جسم کے اعضا کے متعلق واقفیت ہو مگر یہ واقفیت علم الابدان کا درجہ نہیں رکھتی۔ جس طرح اینٹوں کا ایک ڈھیر عمارت نہیں کہلاتا اسی طرح غیر مربوط اور نامکمل واقفیت علم کہلانے کا مستحق نہیں۔ ہمارے ذہن میں انواع و اقسام کی باتیں یا چیزیں نہایت بے ترتیبی کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ انھیں اپنے شعور اور مشاہدات کی قوت سے ازسرنو مربوط شکل اور ترتیب دینا اور انھیں بامعنی بنانا ہی تحریر نگار کا اصل کام ہے۔
دوسری بات جو ضروری ہے وہ ہے مطالعہ۔ پڑھنے کا عمل  کہلاتا ہے جب پڑھنے کے ساتھ آپ کو پڑھنے کی لذت محسوس ہونے لگے تو یہ عمل  بن جاتا ہے۔ ایک لکھاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ مطالعے کی عادت کو اپنائے۔ تیسری اہم بات ہر لفظ کا کوئی نہ کوئی مطلب ہوتا ہے خواہ ہم اسے بیان کرسکیں یا نہ کرسکیں اس کو  کہتے ہیں۔ اس لیے جو بھی لفظ بالخصوص اصطلاحی لفظ جب آپ پڑھیں یا لکھیں اس کا مطلب آپ کے ذہن میں واضح ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مختلف موضوعات کی اصطلاحات پر مبنی کتب کا مطالعہ کرلیا جائے تو یہ عمل تحریر نگاری کے لیے سب سے زیادہ معاون ثابت ہوگا۔

ان تینوں امور پر عبور حاصل کرنے کے بعد آپ لکھنے کا ذہن بنا لیجیے۔ تحریر کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ موضوع کا تعین کیا جائے۔ مثلاً آپ تعلیم کے مسائل کے موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں تو خیال رکھیں کہ یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ اس کے مسائل کے کئی جز ہیں مثلاً نظام تعلیم میں خرابیاں، طبقاتی نظام تعلیم، نصاب کا یکساں نہ ہونا، ذریعہ تعلیم کا ایک نہ ہونا، امتحانی نظام میں خرابیاں ، تعلیمی اداروں کی حالت زار وغیرہ وغیرہ۔ لکھنے سے پہلے آپ کسی ایک مسئلے کا تعین کیجیے تاکہ تحریر الجھنے نہ پائے۔ موضوع اور اس کے ایک پہلو یا جز کے تعین کے بعد اس موضوع پر مضامین، کتابیں، رسائل اور دیگر تحریری مواد پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی تحریر نہیں لکھی جاسکتی۔

اس مطالعے کے اس موضوع سے تعلق رکھنے والے افراد سے گفتگو ضروری ہے جو اس حوالے سے نہ صرف علمی معلومات رکھتے ہوں بلکہ عملی تجربہ بھی رکھتے ہوں۔ یعنی پیشہ ورانہ افراد سے گفتگو مفید ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً آپ عدالتی مسائل پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے لیے آپ قانون کی تدریس کا عمل انجام دینے والے استاد سے گفتگو یا تبادلہ خیال کرتے ہیں تو آپ کا یہ عمل زیادہ مفید نہ ہوگا۔ کیونکہ ایک استاد پڑھانے کا عمل ایک مشینی انداز سے کرتا ہے وہ مسئلے کے زمینی حقائق سے واقفیت نہیں رکھتا اس لیے ضروری ہے کہ تبادلہ خیال ایسے افراد سے کیا جائے جو نہ صرف علم رکھتے ہوں بلکہ زمینی حقائق سے بھی واقفیت رکھتے ہوں۔

مطالعہ اور گفتگو کے بعد آپ کو بھی تحریری مواد حاصل ہوجائے گا۔ اس حاصل شدہ اور مطالعہ شدہ مواد کو بار بار پڑھیے اسے اپنے ذہن کی ہانڈی میں مناسب وقت تک پکنے دیجیے۔ یہ مناسب وقت ایک دن بھی ہوسکتا ہے اور کئی ماہ بھی۔ اس دوران اہل علم لوگوں سے تبادلہ خیال جاری رکھیں۔ موضوع پر غور و فکر کے بعد جب آپ کو خود احساس ہو جائے کہ آپ اس موضوع پر لکھ سکتے ہیں تو لکھنے کا آغاز کیجیے۔ تحریر لکھتے وقت آپ کے ذہن میں تحریر کا مرکزی خیال واضح ہونا چاہیے۔ اس سے مضمون کو دائرے میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

مضمون کی سرخی یا عنوان سب سے اہم ہے آپ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ آپ خود بیشتر کالم اور مضامین کا انتخاب سرخی پڑھ کر کرتے ہیں۔ اس لیے عنوان ایسا تحریرکیا جائے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ مضمون کا پہلا پیراگراف یا ابتدا اہم چیز ہے۔ عنوان کے بعد پڑھنے والا ابتدائی پیراگراف پڑھ کر مضمون کو مکمل پڑھنے یا نہ پڑھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس لیے ابتدائیہ دلچسپ ہونا چاہیے اور پورے مضمون کے اہم نکات کا خلاصہ بھی۔

ابتدائی پیرا گراف کے بعد اپنی بات کو منطقی انداز میں ترتیب کے ساتھ آگے بڑھائیے۔ مضمون کا آخری پیراگراف جسے اختتامیہ کہا جاتا ہے اس کو اس طرح لکھیے کہ آپ کی بات مکمل ہوجائے اور پڑھنے والے کو مضمون ختم کرنے کے بعد یہ احساس نہ ہو کہ اس کو کسی سوال کا جواب نہیں ملا۔

مضمون مکمل کرنے کے بعد اسے ایک دن یا ایک ہفتے بعد پوری توجہ سے پڑھیے۔ جہاں کہیں کوئی جملہ غیر ضروری ہو یا کہیں نامناسب بات لکھنے میں آگئی ہو، کہیں کوئی جملہ نا مکمل یا الجھا ہوا نظر آئے ان تمام خامیوں کو دور کیجیے اور خوشخط لکھ کر اشاعت کے لیے ارسال کر دیجیے۔ اگر آپ کی تحریریں معیاری اور قابل اشاعت ہونے لگیں تو ہماری آپ کے لیے یہی دعا ہوگی کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہوجائے۔

تحریر کے حوالے سے ایک ضروری بات ذہن میں رکھیں کہ انسانی ذہن جو سوچنے کا عمل انجام دیتا ہے اس سوچ کے تحت وہ پہلے مقدمات بناتا ہے اور اس سے نتائج اخذ کرکے مناسب ردعمل یا رائے کا اظہارکردیتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بعض لکھنے والے پہلے ایک رائے قائم کرتے ہیں پھر اس کے حق میں دلائل تلاش کرکے اس کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں یہ طریقہ درست نہیں ہے اس انداز فکر سے صلاحیتیں دھندلا جاتی ہیں۔ میرے نزدیک جو کچھ لکھا جائے وہ آزاد انداز فکر اور سچائی کے ساتھ لکھا جائے۔ سچائی کے ساتھ لکھی جانے والی تحریریں دل کش اور پراثر ہوتی ہیں اور ایسی تحریریں ہی معاشرے میں تبدیلی کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ اس لیے آج ہی قلم اٹھائیے اور فن تحریر کے شہسواروں کے کارواں میں شامل ہوکر معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کیجیے۔

جبار قریشی

Post a Comment

0 Comments