All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

شہرہ آفاق مصور،شاعر، خطاط اور نقاش صادقین.....


محمد کاظم

پاکستان کے شہرہ آفاق مصور،شاعر، خطاط اور نقاش صادقین کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ مصوری کے علاوہ انھوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام اور آیات ِ قرآنی کو بھی خطاطی کے قالب میں ڈھالا۔ اُن کا فن، ماورائے عصر تھا اور ہمیشہ رہے گا۔صادقین کے ذہن میں تخلیق کا آبشار بہتا تھا۔ ان کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فریئر ہال کراچی، نیشنل میوزیم، صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔

 صادقین نے مصوری کے منفرد نمونے پیش کر کے جہاں انھیں تخلیقی شاہکار بنا دیا ،وہیں رباعیات کہنے میں بھی ان کو کمال حاصل تھا اور دوسرے شعرا کی طرح انھوں نے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی رباعیات نہیں کہیں بلکہ اسے فن کے طور پر لیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات میں بے ساختہ پن ہے: ایک بار میں ساحری بھی کر کے دیکھوں کیا فرق ہے شاعری بھی کر کے دیکھوں تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے شعروں میں مصوری بھی کر کے دیکھوں پاکستان میں صادقین کی پہلی تصویری نمائش 1954ء میں منعقد ہوئی۔

 بعد ازاں یورپ بالخصوص فرانس میں ان کے فن پاروں کو زبردست پذیرائی ملی۔ مارچ 1970ء میں انھیں تمغۂ امتیاز اور1985ء میں ستارہ ٔامتیاز سے نوازا گیا۔صادقین کی پیدائش امروہہ میں 1930ء میں ہوئی تھی۔ چونکہ ان کے والد خطاط تھے، اس لیے انھوں نے بھی اسی فن کو اپنایا حالانکہ اس وقت ہی ان کو شعر و شاعری کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا تھا، جس کا اظہار وہ ایک رباعی میں خود ہی کرتے ہیں: شب میری تھی، رات میری، دن تھا میرا آیا ہوا خود مجھ پہ ہی جن تھا میرا کتنی ہی رباعیاں تھیں لکھ کر پھاڑیں اٹھارہ برس کا جب کہ سن تھا میرا صادقین کو اس بات پر بھی فخر تھا کہ دنیا میں ان کا کوئی ہم نام نہیں : گر اپنی ثنا عام نہیں دنیا میں پھر تو مجھے کچھ کام نہیں دنیا میں یکتائی کا دعویٰ فقط اس بات پہ ہے کوئی میرا ہم نام نہیں دنیا میں صادقین کی رباعیوں میں رومان کی ایک لہر بھی کروٹ لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے،

 لیکن ان کی تصاویر اور ان کے تصورِ فن کی طرح اُن کا یہ رومان بھی دوسروں سے جداگانہ ہے : کھلتی ہوئی کلیاں ہیں، چمن کی تیرے رنگیں سی روشنی ہے، تن کی تیرے خلوت کی ہر اک شے پہ ہے ہلکی ہلکی چھٹکی ہوئی چاندنی، بدن کی تیرے الغرض دنیا بھر میں صادقین کے فن کی دھوم مچی، پاکستان میں بھی تو مختلف مقامات پر اُن کے خطاطی کے نمونے نظر آتے ہی ہیں۔ ہندوستان میں بھی دہلی کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس، حیدرآباد اور کئی شہروں میں صادقین کی مصوری کے نمونے لوگوں کی نظروں کو اپنی جانب بے محابہ کھینچ لیتے ہیں۔

 پاکستان میں جہاں انہیں اعزازات سے نوازا گیا ، وہیں ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس میں ہندو یونیورسٹی نے بھی انہیں اعزاز بخشا تھا، لیکن صادقین کی طبیعت قلندرانہ تھی اس لیے وہ کسی منزل پر رکتے نہیں تھے۔ حالانکہ ان کی خطاطی پر جو تنقید ہوئی، اس سے بھی وہ کسی قدر بدحظ نظر آتے ہیں، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں: جو نقش تھے پامال بنائے میں نے پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر پھر اپنے خد و خال بنائے میں نے صادقین اپنے آرٹ میں سرتاپا ڈوبے رہے اور10 فروری 1987ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا۔

Post a Comment

0 Comments