All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

دنیا کی عظیم ایجاد...ریڈار...

رابرٹ واٹسن واٹ نامی شخص نے 1915ء میں اس پرکام شروع کیا   لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ کی جنگ کے دوران برطانوی فائٹر پائلٹوں نے ہی فضائی جنگ جیت کر جرمنی کے خلاف برطانیہ کو فتح دلائی تھی۔ جیساکہ وزیر اعظم وِنسٹن چرچل نے کہا ’’کبھی بھی چند ایک لوگوں نے بہت سوں کی خاطر اتنا کچھ نہیں کیا‘‘ لیکن ملک کو بچانے کے عمل میں ایک اور چیز کا ہاتھ تھا اور یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس کے بغیر برطانیہ جنگ ہارجاتا۔

 یہ چیز تھی ’’ریڈار‘‘ دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں اتحادی فوجیوں کو محفوظ رکھنے میں جس طرح اچانک پنسلین نے کردار ادا کیا اسی طرح ریڈار بھی اچانک منظر عام پر آیا۔ تاہم ریڈار جنگ میں استعمال کی غرض سے ایجاد نہیں کیا گیا تھا۔ اسے متعدد سائنسدانوں نے بنایا، لیکن اہم ترین شخص رابرٹ واٹسن واٹ نامی سکاٹش تھا ،جس نے 1915ء میں اس پرکام شروع کیا۔

 واٹسن واٹ نے جنگی مقاصد کو ذہن میں رکھ کر اس پر کام کا آغاز نہیں کیا تھا۔ وہ Brcehin ، سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا اور ریڈیو ٹیلی گرافی میں دلچسپی رکھتا تھا۔ انجام کار وہ لندن موسمیاتی آفس میں پہنچا اور ریسرچ سائنس دان بن گیا۔ ہوائی جہازوں کا استعمال بڑھتا جا رہا تھا، اس لیے انہیں طوفانوں اور دیگر قسم کے متلاطم موسمی حالات سے محفوظ رکھنے کی ضرورت تھی۔ اس نے ایک ابتدائی قسم کے ریڈار پر کام کیا اور 1920ء کی دہائی کے اوائل میں ’’نیشنل فزیکل لیبارٹری‘‘ کے ریڈیو سیکشن میں شمولیت اختیار کی جہاں مطالعہ کیا اور
بحر پیمائی آلات اور ریڈیو مینارۂ نور (Beacon) بنائے 

 ریڈار کا بنیادی اصول کافی حد تک و ہی ہے جس کے تحت چمگادڑریں سامنے آنے والی چیزوں کاسراغ لگاتی ہیں۔ ایک انٹینا ریڈیو لہریں نشر کرتا ہے اور جو راستے میں آنے والی کسی چیز سے ٹکرا کر واپس پلٹتی ہیں۔ اس طرح یہ اندازہ لگانا ممکن ہوتا ہے کہ وہ چیز کتنی دور ہے۔ آخرکار ایک عسکری ہتھیار کے طور پر ریڈار کو استعمال کرنے کا سوچا گیا اور متعدد کمپنیوں نے فوراً اس پر کام شروع کر دیا (بشمول کچھ جرمن کمپنیوں کے)۔ واٹسن واٹ کو و زارتِ فضائیہ اور وزارتِ ائیر کرافٹ پروڈکشن میں عہدہ دیا گیا۔ اسے ریڈار بنانے کے لیے ہر قسم کی سہولت میسر تھی۔ 1935ء میں اس نے ایسا ریڈار تیار کر لیا تھا جو 40 میل سے دور آتے ہوئے ائیر کرافٹ کا سراغ لگا سکتا تھا۔ دو برس بعد برطانیہ میں ریڈار کا پورا نیٹ ورک قائم ہو چکا تھا۔ ریڈار میں ایک نقص موجود تھا۔ 

برقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) لہریں سلسلہ وار صورت میں نشر کی جاتی تھیں جو آبجیکٹ کی موجودگی کا تو پتہ لگا لیتی تھیں مگر اس کی درست سمت معلوم کرنا ممکن نہ تھا۔ پھر 1936ء میں Pulsed ریڈار بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے سگنل مخصوص وقفے کے بعد جاتے تھے۔ یوں ٹارگٹ کی رفتار اورسمت کا تعین کرنا ممکن ہو گیا۔ 1939ء میں ایک اور نہایت اہم کامیابی حاصل کی گئی: ایک ہائی پاور مائیکرو ویو ٹرانسمٹر کو مکمل کیا گیا۔ اس کی اصل برتری بالکل درست نتائج فراہم کرنا تھی۔ اس نے برطانیہ کو باقی دنیا پر فوقیت دلا دی۔ 

موسمی حالات بھی اس پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے۔ نیز اس کے لیے ایک نسبتاً چھوٹا انٹینا درکار تھا۔ لہٰذا جہازوں اور دیگر چیزوں پر بھی ریڈار نصب کیے جانے لگے۔ عملی فوائد بہت سے تھے۔ اس کی وجہ سے برطانیہ کو جرمن فضائیہ کے ساتھ لڑائی میں اپنے جہاز بالکل درست سمت میں بھجوانے کی قابلیت حاصل ہو گئی۔ آخر کار جرمنی کو صرف رات کے وقت ہی پروازیں کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تب تک برطانیہ نے اپنے جہازوں میں چھوٹے چھوٹے مائیکرو ویو یونٹ نصب کر لیے تھے اور لڑاکا طیاروں کے پائلٹ رات کے وقت جرمن بمبار جہازوں کی پوزیشن معلوم کرنے اور ان پرحملہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ 

بلاشبہ ریڈار کے بہت سے سویلین استعمالات بھی ہیں۔ موسمیات میں اس کا عمل دخل بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ طوفانوں اور آندھیوں کا پتہ لگا سکتا ہے۔بحری، فضائی اور خلائی سفر میں بھی اس سے کام لیا جاتا ہے۔ دور دراز ستاروں اور سیاروں کے بارے میں معلومات اورتصاویر اسی کے ذریعے لی جا رہی ہیں۔

یاسر جواد

 (دنیا کی 100عظیم ایجادات سے ماخوذ) 

Post a Comment

0 Comments