All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

نیوز چینل کوریج کرنا کب سیکھیں گے؟....

پشاور کے اس بھیانک سانحے کو اب 10 روز گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی بھی جب ٹی وی پر اس حوالے سے خبریں آتی ہیں، تو ہم پر خوف اور غصے کی ایک لہر چھا جاتی ہے۔ پر اب وقت ہے کہ اس بارے میں کھل کر بات کی جائے کہ الیکٹرانک میڈیا کس طرح قومی سانحات کو تماشا بنا کر پیش کرتا ہے۔

جب بھی اس طرح کی بری خبر پر تازہ ترین معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ ٹی وی کھولیں گے، تو آپ کچھ چیزوں کے لیے تو تیار ہوں گے، جن میں خون آلود فرش اور گولیوں سے چھلنی دیواریں وغیرہ شامل ہیں۔ ایسی کسی بھی قتل و غارت کی فوٹیج میں پریشان کن تصاویر اور ویڈیوز کا ہونا لازمی امر ہے۔
لیکن کسی بھی طرح اس سے ٹی وی چینلز کو نیوز کو قابلِ نفرت ڈرامے میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں مل سکتی، جو کہ ویسے بھی ہمارے نیوز چینلز کی پہچان بن چکا ہے۔

لیکن پھر بھی ہم اسے اپنے ٹی وی پر بار بار دیکھتے ہیں۔ غیر ضروری ڈرامائی کیمرا اینگلز، بیک گراؤنڈ میں ایک اداس میوزک کے ساتھ ہر قتل کی انتہائی بھیانک تفصیلات، غیر متعلقہ شاعری، جذباتی وائس اوورز، ہر دیکھنے والے کو بار بار خوف میں مبتلا کرتے جاتے ہیں۔

اور بسا اوقات ایک انتہائی خوفناک فوٹیج کے دوران کسی موبائل فون کے نئے ماڈل، کسی کولڈ ڈرنک، یا کسی پان مصالحے کا اشتہار چلنا شروع ہوجاتا ہے۔
اس اشتہار کا اصل پیغام یہ ہوتا ہے: سانحہ ہوگیا، اب اسے بھول جاؤ اور ہماری پراڈکٹ خریدو۔


کمپنیوں کو اپنی پراڈکٹس پر زیادہ سے زیادہ نظریں چاہیے ہوتی ہیں، اور انہوں نے اپنا فائدہ ملک کی حالیہ تاریخ کے خوفناک ترین سانحے کے دوران بھی حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح کے لوگ ٹی وی بزنس چلاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب قوم شدید صدمے سے گزر رہی تھی، تب بھی یہ لوگ زیادہ منافع کی فکر کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ بزنس بھلے ہی خود کو مشین کی طرح سمجھیں، لیکن پھر بھی مشین کو انسان ہی چلاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی نے تو ایسے وقت میں افسردگی اور ہمدردی کے بجائے منافع کمانے کو ترجیح دی۔

ایک صحافی کا کام کسی سانحے کی خبریں عوام تک لانا ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ صرف خبر پیش کریں، اور پھر دیکھنے والے پر چھوڑ دیں کہ وہ اس پر غم و غصے کا اظہار کرتا ہے یا نظرانداز کردیتا ہے۔ لیکن جب سے نیوز میڈیا پرائیویٹائز ہوا ہے، یہ دیکھنے والوں کے جذبات پر اثرانداز ہورہا ہے، جبکہ بامقصدیت کو کیش پر قربان کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سنسنی اور خبر کے درمیان فرق ختم ہوتا جارہا ہے۔

اب ہم آتے ہیں 16 دسمبر 2014 کی ٹرانسمیشن پر۔ لوگ واقعات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے، لیکن خبریں پیش کرنے کے طریقہ کار نے نئی پستیاں دیکھیں۔ ٹرانسمیشن شروع افسوس بھرے جذبات کے ساتھ ہوئی، لیکن بعد میں یہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے پر تمام ہوئی۔

متاثر ہونے والے بچوں کے خاندانوں کے لیے کتنا تکلیف دہ ہو گا کہ جس چیز سے انہیں صدمہ پہنچ رہا ہے اسے بار بار پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ٹی وی چینلز کسی ایک اپروچ سے مطمئن نظر آنے کے بجائے بار بار بیک گراؤنڈ میوزک اور وائس اوور میں تبدیلی کرتے رہے، تاکہ شاک کو برقرار رکھا جاسکے۔
کئی لوگوں نے اس بات کی شکایت کی کہ ٹی وی اینکر لوگوں کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر سانحے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ یا تو ان کو کیمرا کے دوسری طرف سے، یا ایئر فون کے ذریعے پروڈیوسر کی جانب سے بتایا جارہا ہوتا ہے کہ کیا کرنا اور کہنا ہے۔ یہ پروڈیوسر ہی ہیں جو 16 دسمبر جیسے واقعات کو بھیانک ترین روپ میں پیش کرنے کے 'زبردست آئیڈیاز' لے کر آتے ہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹی وی اینکرز مکمل طور پر بے قصور ہیں۔ جس وقت ان کا لہجہ دھیما ہونا چاہیے، اس وقت یہ بالکل ہی بے حس ہوتا ہے۔ 'جی ہاں، یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔' … 'افسوس' بولنے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔
اس کے علاوہ اس ظالمانہ حملے کے فوٹیج چلاتے ہوئے نیوز چینلز نے کونے میں PG-18 کا لوگو پیسٹ کر کے دیکھنے والوں کو سانحے کی اور اس کے بعد کی صورتحال کی مکمل فوٹیج دکھائی۔

کسی بھی فوٹیج پر PG-18 لکھنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچے اسے دیکھنے سے پہلے اپنے والدین سے اجازت لیں۔ لیکن یہ گائیڈ لائنز کبھی بھی لوگوں کو فراہم نہیں کی جاتیں۔ جس مقصد کے لیے یہ بنائی گئی ہیں، وہ مقصد کس حد تک پورا ہوا؟

پوری دنیا نے 16 دسمبر کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ ترکی نے اسے یومِ سوگ قرار دیا۔ ہندوستان نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی، اور ہمارے اپنے سیاستدانوں نے اختلافات ایک طرف رکھ دیے۔ بہت سے لوگوں نے سانحے کی وجہ سے پوائنٹ اسکورنگ کرنے سے پرہیش کیا۔ لیکن جیسے ہی ملک کی مسیحی برادری نے کرسمس کی تقریبات منسوخ کیں، تو ہمارے نیوز اینکرز نے فوراً ہی اس بات کی نشاندہی کر ڈالی کہ مسیحی اقلیت پر حملے کی صورت میں کبھی کوئی تہوار منسوخ نہیں کیا جاتا۔

شاید ان کے ذہن میں وہ اقلیتوں پر بڑی مہربانی کر رہے تھے۔ لیکن شاید انہیں اپنے ایجنڈوں کو ترجیحات دینے کی ضرورت ہے۔

کسی کے لیے یہ شکایات بہت ہی معمولی ہوں گی، لیکن یہ سب مل کر ٹرانسمیشن کو ایسا بنا دیتی ہیں، جو دیکھنے والوں کو ناامیدی میں دھکیل دیتی ہے۔ نیوز اور خوف اب ہم معنی ہوچکے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ منہ دوسری طرف موڑ لیں اور یہ ظاہر کریں کہ سب ٹھیک ہے، لیکن خبر اور صدمے میں ڈال دینے والی فوٹیجز کے درمیان فاصلہ ہونا ضروری ہے۔

صحافت مکمل طور پر واقعات کی اہمیت اور حساسیت کو سمجھنے اور ان میں توازن برقرار رکھنے کا نام ہے۔ یہ توازن کہاں ہے؟

عدی عبدالرب

Post a Comment

0 Comments