All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

جب آئی ایس آئی کی بنیاد پڑی......ISI


وطن عزیز کے اُس قومی ادارے کا دل افروز قصّہ جس سے منسلک زیرک و دلیر پاکستانی ملک دشمن قوتوں کے پوشیدہ و عیاں عزائم خاک میں ملانے کی خاطر دن رات متحرک رہتے ہیں ’’صرف مدبّر حکمران اور دانش مند جرنیل ہی فوج میں شامل ذہین ترین افراد سے جاسوسی وسراغ رسانی کاکام لیتے ہیں۔سو کامیابی و کامرانی بھی انہی کا مقدر بنتی ہے۔‘‘(مشہور چینی جرنیل و فلسفی سن زی ) ٭٭٭٭ یہ 26جون 1979ء کی بات ہے ،کہوٹہ لیبارٹریز کی حفاظت پر مامور آئی ایس آئی کے جوانوں نے علاقے میں دو غیر ملکیوں کو کار میںاِدھر اُدھر حرکت کرتے دیکھا۔ وہ اپنے کیمروں سے اردگرد کے مناظر کی تصاویر کھینچ رہے تھے ۔یہ دیکھ کر جوانوں کی چھٹی حس جاگ پڑی۔ 

کہوٹہ لیبارٹریز میں پاکستانی سائنس داں و انجینئر راز دارانہ طور پر ایٹم بم بنانے کی کوششوں میں محو تھے۔اس بم کی تیاری سے قومی دفاع انتہائی مضبوط ہو جاتا اور دشمن جرات نہ کرتا کہ پاکستان کو میلی نظر سے دیکھ سکے۔قدرتاً یہ انتہائی حساس معاملہ تھا۔بھارت اور اسرائیل کے علاوہ مغربی استعمار کی خفیہ ایجنسیاں بھی پاکستانی ایٹم بم کو تردد کی نگاہ سے دیکھ رہی تھیں۔ان کی یہی سعی تھی کہ ایک اسلامی ملک ایٹمی طاقت نہ بننے پائے۔ آئی ایس آئی کے جوان اس سارے پس منظر سے بخوبی واقف تھے۔سو انہوں نے دفاعِ وطن سے متعلق حساس ترین مقام پر دو غیر ملکیوں کو منڈلاتے دیکھا تو چوکنا ہو گئے۔انہوں نے موقع پاتے ہی انہیں جا پکڑا اور پوچھ گچھ کرنے لگے ۔جوانوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک غیر ملکی ،لیو گورریریس فرانس کا سفیر تھا۔دوسرا فرانسیسی سفارت خانے کا فرسٹ آفیسر نکلا۔ بعدازاں تفتیش سے انکشاف ہوا کہ دونوں فرانسیسی امریکی خفیہ ایجنسی ،سی آئی اے کے ایجنٹ تھے۔سی آئی اے نے ان کی خدمات اس لیے حاصل کی تھیں تاکہ کہوٹہ لیبارٹریز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تصویری معلومات حاصل کرسکے۔یوں آئی ایس آئی کے جوانوں نے حاضر دماغی اور دلیری سے کام لیتے ہوئے دشمن کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔

 دین اسلام اور دفاع دشمن کے عزائم اور سرگرمیوں سے باخبر ہونے اور اپنا دفاع مضبوط بنانے کے لیے ازروئے قرآن و سنت دشمنوں کی جاسوسی و سراغ رسانی کرناجائز ہے۔درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِ مکہ اور دیگر مخالف عرب قبائل کے مذموم منصوبوں و چالوں سے واقف ہونے کی خاطر بڑے مربوط انٹیلی جنس نظام کی بنیاد رکھی۔ابتداً یہ کام عام مخبروںسے لیا جاتا تھا۔بعدازاں مدینہ منورہ میں سراغ رسانی کا باقاعدہ شعبہ (Cell)تخلیق کیا گیا جس کے پہلے سربراہ حضرت عمرؓبن خطاب بنائے گئے۔ تاریخ اسلام سے عیاں ہے کہ پہلے مسلمان جاسوس خلیفہ اول،حضرت ابوبکرصدیقؓ کے صاحبزادے ،حضرت عبداللہؓ تھے۔ہجرت مدینہ سے قبل نبی کریمؐ اور خلیفہ اولؓ نے تین دن غار ثور میں قیام فرمایا تھا۔ اس زمانے میں حضرت عبداللہ ؓ لڑکے سے تھے۔پہلے ہی روز رسول اللہ ؐ نے حضرت عبداللہؓ کو ہدایت دی کہ دن بھر کفار مکہ کے ساتھ اٹھو بیٹھو۔اور جو باتیں سنو ، وہ شام کو آ کر بتائو۔اسی قسم کی جاسوسی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ،حضرت اسماؓ نے کفار خواتین کی گفتگو سن کر انجام دی۔انہیں دنیائے اسلام کی پہلی مسلم سراغ رساں خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔حضرت ابوبکر صدیقؓکے غلام ،عامر بھی کفار کی سن گن لیتے رہے۔یوں ان تین مخبروں کی مدد سے حضور اکرمؐ کو جو معلومات ملیں ،ان کے ذریعے آپ ﷺنہ صرف دشمن کے منصوبوں اور چالوں سے باخبر رہے بلکہ انہیں ناکام بھی بنا دیا۔ مدینہ منورہ میں مقیم ہونے کے بعد حضور اکرمؐ اور صحابہ کرام نے اپنے دفاع اور دشمنوں کے عزائم سے باخبر ہونے کی خاطر سب سے زیادہ شعبہ انٹیلی جنس ہی سے مدد لی۔یوں دشمنوں کی چالو ںکا توڑ کر کے مسلمان اپنے آپ کو مضبوط بناتے چلے گئے۔

آخر وہ تاریخی وقت آ پہنچا جب پورے عرب میں اسلام کا نور پھیل گیا۔ سنت نبویؐ پر عمل کرتے ہوئے آنے والی اسلامی حکومتوں نے بھی منظم و مربوط انٹیلی جنس یونٹ قائم کیے۔درحقیقت وہ ہر اسلامی مملکت کی دفاعی جنگ میں فوج کے کان،آنکھ اور بازو بن گئے۔ سراغ رسانوں،جاسوسوں اور مخبروں پہ مشتمل یہ وسیع نیٹ ورک دشمنوں کو غالب نہ آنے دیتے۔ رفتہ رفتہ جب یہی شعبہ جاسوسی کمزور ہوئے، تو یہ امر بھی اسلامی سلطنتوں کے زوال کا اہم سبب بن گیا۔ انگریز کا نظام ِجاسوسی انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے اسلامی ہندوستان میں قدم جمائے تو وہ تعداد میں بہت کم تھے۔اسی لیے انہیں اپنے انٹیلی جنس یونٹوں میں مقامی باشندے بھرتی کرنے پڑے۔انگریز استعمار نے البتہ یہ جدت اپنائی کہ اس کے ہندو اور مسلم ایجنٹ عموماً اپنے اپنے مذہبی گروہوں ہی میں جاسوسی کرتے ۔ہندوستان میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لیے انگریزوں نے بڑا جامع انٹیلی جنس نیٹ ورک تشکیل دیا۔اسی باعث ملک میں آزادی کے کئی منصوبے مثلاً تحریک ریشمی رومال کامیاب نہیں ہو سکے۔ بیسویں صدی تک ’’آئی بی‘‘ (آل انڈیا انٹیلی جنس بیورو)برطانوی ہند حکومت کی بنیادی خفیہ ایجنسی بن گئی۔ اس کاانتظام پولیس افسروں کے ہاتھوں میں تھا۔اس ایجنسی کے سویلین مخبر و جاسوس قصبات اور دیہات تک پھیلے ہوئے تھے۔آئی بی کی ذمے داری تھی کہ وہ حریت پسندوں پر نظر رکھے تاکہ وہ انگریز استعمار کے خلاف منصوبے نہ بنا سکیں۔برطانوی ہند حکومت نے ’’ایم آئی‘‘ (ملٹری انٹیلی جنس)بھی بنا رکھی تھی مگر اس خفیہ ایجنسی کا دائرہ کار صرف فوج تک محدود تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان میں انٹیلی جنس سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں۔جرمن اور جاپانی خفیہ ایجنسیوں کی چالوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر انگریزوں نے مزید خفیہ ادارے قائم کیے جن میں’’ ایس او ای‘‘ (سپیشل آپریشن ایگزیکٹو)نمایاں ہے۔اسی خفیہ ایجنسی کے ہندوستانی و برطانوی ایجنٹوں نے برما میں جاپانیوں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں کیں اور انھیں وہاں مستحکم نہیں ہونے دیا۔ بھارت کی انگلیاں گھی میں اگست 1947ء میں ہندوستان دو مملکتوں …بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا۔تب برطانوی ہند حکومت کی ملکیت ہر شے کا بھی بٹوارہ ہوا۔بھارتی فوج یوں فائدے میں رہی کہ اسے دہلی میںافواج ِ برطانوی ہند کا جما جمایا ہیڈ کوارٹر مل گیا۔وہیں ایم آئی سمیت دیگر خفیہ ایجنسیوں کا انفراسٹرکچر بھی مربوط حالت میں تھا۔

یوں نو زائیدہ بھارتی حکومت کو اپنا انٹیلی جنس نظام کھڑا کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی۔ دوسری طرف حکومت پاکستان کو نئے سرے سے اپنا انٹیلی جنس شعبہ تعمیر کرنا پڑا۔ تب ملکی وسائل ہی کم نہ تھے،بلکہ تجربے کار ماہرین جاسوسی کا بھی فقدان تھا۔بہرحال حکومت برطانوی ہند کی آئی بی میں شامل جو مسلمان افسرو ماہرین پاکستان آئے ،انہی پر مشتمل پاکستانی ’’آئی بی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔یہ وطن عزیز کی پہلی انٹیلی جنس ایجنسی تھی ۔ بدقسمتی سے جنگ کشمیر(1947ء )میں آئی بی دشمن کے خلاف موثر کردار ادا نہیں کر سکی۔

چناں چہ بھارتی مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے۔اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی آئی بی کے افسر و کارکن اندرون ملک انٹیلی جنس معاملات کا تجربہ رکھتے تھے۔جب غیرملکی سرزمین پہ انھیں سراغ رسانی کی حساس و نفیس ترین سرگرمیاں انجام دینا پڑیں ،تو ناتجربہ کاری کے باعث وہ ان کو صحیح طرح نہ نبھا سکے۔سو پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت نے فیصلہ کیا کہ دشمن کے مذموم منصوبے ناکام بنانے کی خاطر نئے خفیہ ادارے قائم کیے جائیں۔ خاک سے نیا ڈھانچا بنانا پڑا قیام پاکستان کے وقت شعبہ جاسوسی سے متعلق صرف ایک تربیتی ادارہ’’اسکول آف ملٹری انٹیلی جنس‘‘پاکستانی سیکورٹی فورسز کے حصے میں آیا۔یہ تب تک کراچی سے مری منتقل ہو چکا تھا۔اس کے پہلے پاکستانی کمانڈر،کیپٹن اختر عالم مقرر ہوئے۔دسمبر 1947ء میں انٹیلی جنس کا وسیع تجربہ رکھنے والے مسلم فوجی افسر،میجر محمد ظہیر الدین کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔اسی اسکول میں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں میں اپنے فرائض انجام دینے والے اولیّں افسروں اور ماہرین نے جاسوسی و سراغ رسانی کی تربیت پائی اور دفاع ِوطن کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ 

جیسا کہ پہلے بتایا گیا،ابتداً پاک افواج بے سر وسامانی کی حالت میں تھیں۔سو دفاع کا سارا ڈھانچا اور انفراسٹرکچر اصلتاً خاک سے نئے طور پہ تخلیق کرنا پڑا۔اسی لیے پہلے پہل ملٹری انٹیلی جنس سے متعلق معاملات شعبہ ایم او(ملٹری آپریشنز)کو سونپ دئیے گئے جس کی قیادت بریگیڈئر محمد شیر خان کر رہے تھے۔تجربے کار افرادی قوت کی شدید کمی تھی۔صورت حال کی گھمبیرتا کا اندازہ یوں لگائیے کہ آزادی کے سمّے پاک فوج میں صرف ایک میجر جنرل،دو بریگیڈئر اور ترپین(53)کرنل موجود تھے۔ آخر اسکول آف ملٹری انٹیلی جنس سے تربیت پانے والے ماہرین کا پہلا دستہ نکلا،تو مارچ 1948ء میں ’’ایم آئی‘‘ (ملٹری انٹیلی جنس) کی بنیاد رکھی گئی۔اس کے پہلے سربراہ مایہ ناز مسلم فوجی افسر،کرنل محمد عبدالطیف خان بنائے گئے۔یوں ان کی ان تھک رہنمائی میں ہماری ایم آئی کا بے مثال سفر شروع ہوا۔اس کے بعد جلدہی ایک اور شاندارخفیہ ادارے ،انٹر سروسز انٹیلی جنس کا قیام عمل میں آیا جو آج بہ حیثیت ’’آئی ایس آئی‘‘ جانا جاتا ہے…وہ خفیہ ادارہ جس کا نام سنتے ہی دشمن خوف سے تھّرا اٹھتا ہے۔ پاکستانی سپوتوں کی قربانیاں صد افسوس کہ کم از کم دنیائے انٹرنیٹ پہ ان نامورپاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے قیام کا سہرا ایک غیرملکی فوجی افسر،والٹر کائوتھورن کے سر باندھ دیا گیا۔

سچ یہ ہے کہ آئی بی،ایم آئی اور ایس آئی ایس…ان تینوں خفیہ اداروں کے نوزائیدہ پودے پاکستانی افسروں و جوانوں نے ہی محنت و مشقت سے پروان چڑھائے اور اپنا لہو دے کر انھیں توانا و مضبوط درخت بنایا۔یہ کہنا کہ کسی غیر ملکی فوجی افسر نے قومی انٹیلی جنس اداروں کی بنیادیں رکھیں، درحقیقت اولیّں پاکستانی سپوتوں کی قربانیاں اور محنت رائیگاں کرنے کے مترادف ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ آئی ایس آئی کے قیام کی تجویز بانی پاکستان،قائداعظم محمد علی جناح کے ذہن ِرسا کی تخلیق ہو۔قائد دفاعِ وطن کو جتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے،وہ ان کی تقاریر کے اقتباسات سے عیاں ہے۔چناں چہ ہو سکتا ہے کہ کسی روشن لمحے انھیں خیال آیا ، ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو تینوں مسلح افواج(برّی،فضائی اور بحری)کے انٹیلی جنس معاملات کو باہم مربوط و منضبط کر دے۔بہرحال پاکستانی مورخین نے لکھا ہے کہ اوائل 1948ء میں پاک فوج کے کمانڈر،جنرل ڈگلس گریسی اور وزیر دفاع،اسکندر مرزا نے والٹر کائوتھورن کو ہدایت دی کہ وہ آئی ایس آئی قائم کرنے کی خاطر مطلوبہ اقدامات کر لیں۔ والٹر کائوتھورن (1896ء۔1970ء )برطانوی نہیں آسٹریلوی شہری تھے۔

پہلی جنگ عظیم کے وقت برطانوی فوج میں شامل ہوئے۔بعد ازاں برطانوی ہند فوج کی16 پنجاب رجمنٹ میں چلے آئے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران مقامی ایم آئی کے چیف رہے۔جیمز بانڈ کے خالق برطانوی ادیب،آئن فلیمنگ کا بھائی،پیٹر فلیمنگ ان کے ماتحت کام کرتا رہا۔وہ ایک ماہر جاسوس تھا۔ ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو کائوتھورن نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔دراصل ان کے بیشتر دوست مسلم فوجی افسر تھے۔جب وہ پاکستان چلے گئے،تو انھوں نے بھی اس نوزائیدہ مملکت کو اپنا نیا وطن بنا لیا۔1948ء میں آپ کو ڈپٹی چیف آف سٹاف مقرر کیا گیا۔اسی عہدے کی مناسبت سے کائوتھورن کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ آئی ایس آئی قائم کرنے کی خاطر وہ تمام مطلوبہ کارروائی کر لیں ۔وہ بعد ازاں دسمبر 1951 ء میں آسٹریلیا چلے گئے تاکہ وہاں کے انٹیلی جنس اداروں سے منسلک ہو سکیں۔مگر عملی طور پہ آئی ایس آئی کو بطور ادارہ کھڑاکرنے کی ذمے داری کرنل شاہد حامد کو سونپی گئی۔تب کرنل صاحب پاکستان نیشنل گارڈز کے کمانڈر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔انھیں نئی ذمے داری ملی ،تو فوراً نئے محاذ پہ جت گئے۔ کریٹ کی بنی میز کرسیاں کراچی میں عبداللہ ہارون روڈ اور غلام حسین ہدایت اللہ روڈ کے سنگم پہ ،زینب مارکیٹ کے سامنے ایک پرانی ،چھوٹی سے یک منزلہ عمارت واقع تھی۔اسی عمارت میں آئی ایس آئی کا پہلا ہیڈکوارٹر قائم ہوا۔(وہاں اب نئی تعمیر شدہ عمارت میں ایک نجی کمپنی کا دفتر کھل چکا)۔14جولائی1948ء کو عمارت میں انٹیلی جنس کا متعلقہ کام باقاعدہ طور پہ شروع ہوا ۔وطن عزیز کے اس اہم ادارہ ِجاسوسی کا آغاز جن نامساعد حالات میں ہوا،ان کا تذکرہ عیاں کرتا ہے کہ تب انسانی جوش و ولولے اور جذبہ حب الوطنی کی بدولت عجب کرشمے ظہور پذیر ہوئے۔ وسائل اور عملے کی شدید کمی تھی،مگر کرنل شاہد اور ان کے مٹھی بھر ساتھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔انھوں نے لکڑی کے کریٹوں کو بطور میز کرسی استعمال کیا۔اپنے پلّے سے دفتری استعمال کی اشیا خریدنا معمول تھا۔دراصل ان پہ بس یہی دھن سوار تھی کہ نوزائیدہ ادارے کو مستحکم کر کے مملکت کا دفاع زیادہ سے زیادہ مضبوط بنا دیا جائے۔ تنکا تنکا جمع ہوا آئی ایس آئی میں پہلے پہل صرف تینوں افواج سے منسلک افسر و جوان شامل کیے گئے۔بعد ازاں سویلین عملہ بھی بھرتی کیا جانے لگا۔ان میں بیشتر افراد پولیس سے لیے جاتے۔آئی بی کے دو ڈائرکٹروں،سید کاظم رضا اور غلام محمد نے آئی ایس آئی کے اولیّں ریکروٹوں کو انٹیلی جنس کے اسرارورموز سکھانے میں بڑی جانفشانی دکھائی۔یوں تنکا تنکا جمع کر کے ایسا قوی لٹھ تیار کیا جانے لگا جسے دشمن کے سر پہ مارا جا سکے۔ کرنل شاہد حامد کی ذمے داری تھی کہ وہ ایجنسی کی سرگرمیوں کی رپورٹ مسلح افواج کے سربراہوں کو ارسال کریں۔ان کے نائب(جنرل سٹاف آفیسر)میجر صاحب زادہ یعقوب علی خان تھے جو بعد لیفٹیننٹ جنرل بنے اور وزیر خارجہ پاکستان رہے۔ آئی ایس آئی کی بنیادیں مضبوط کرنے میں میجر محمد ظہیر الدین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔جولائی 1948ء ہی میں انھیں بھی اسکول آف انٹیلی جنس سے آئی ایس آئی منتقل کر دیا گیا۔وہ سراغ رسانی کے معاملات میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ایجنسی کے اولیّں افسروں نے بھی ان کے تجربے سے خوب فائدہ اٹھایا۔افسوس کہ ظہیر الدین کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۔ 

ہوا یہ کہ 1950ء میں انھیں ترقی دے کر ایم آئی کا سربراہ بنا دیا گیا۔مارچ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس سامنے آ گیا۔یہ سازش پولیس افسروں نے دریافت کی تھی۔اسی لیے ڈی جی ایم آئی،ظہیر الدین کو سازش پکڑنے میں ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔(انھیں اپنے چیف آف جنرل سٹاف،میجر جنرل محمد اکبر خان پہ نظر رکھنا تھی کیونکہ اس زمانے میں ایم آئی انہی کے ماتحت تھی۔)نتیجتہً کمانڈر پاک فوج،جنرل ایوب خان نے انھیں برخاست کر دیا۔اس اقدام سے ظہیر الدین بہت زیادہ افسردہ و دل گرفتہ ہوئے ۔ ایوب خان کا دور کرنل شاہد حامد نے دو برس تک ڈی جی آئی ایس آئی کی ذمے داری نبھائی۔چونکہ وہ میدان جنگ میں جانے کے خواہشمند تھے،سو جون 1951ء میں انھیں بریگیڈیر بنا کر 100 بریگیڈ(پشاور)کی کمان سونپ دی گئی۔ڈی جی کا عہدہ پھر شوریدہ سر سیاسی حالات کے باعث طویل عرصہ خالی رہا۔اکتوبر1958 ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا ،تو انھوں نے بریگیڈیر ریاض حسین کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا۔دنیائے انٹرنیٹ کے مشہور انسائیکلوپیڈیا،وکی پیڈیا میںنجانے کس نے یہ دُرفطنی چھوڑ دی کہ میجر جنرل کائوتھورن 1951ء تا 1959 ء آئی ایس آئی کے ڈی جی رہے۔

اس واسطے انجان لوگ انہی کو اس قومی ادارے کا خالق سمجھنے لگے ہیں۔ شروع میں آئی ایس آئی دشمن کی سراغ رسانی کرنے اور اس کے منصوبے خاک میں ملانے پہ مامور تھی۔ایوب خاں پہلے حکمران ہیں جنھوں نے اس انٹیلی جنس ادارے کو سیاست میں بھی گھسیٹ لیا۔ان کی ہدایت پر ایجنسی کا عملہ حزب اختلاف کی سرگرمیوں پہ نظر رکھنے لگا۔انھوں نے اس قومی ادارے کو اپنا اقتدار مستحکم کرنے کی خاطر بطور آلہ بھی استعمال کیا۔اس روش سے بہرحال ادارے کی پیشہ ورانہ ہیئت و ساخت کو نقصان پہنچا۔ دس بہترین خفیہ ایجنسیوں میںسے ایک آئی ایس آئی نے جہاد ِافغانستان کے دوران عالمی شہرت پائی۔اسی کے عملی تعاون نے ہزارہا افغان مجاہدین کو اس قابل بنایا کہ وہ سویت سپرپاور سے نہ صرف ٹکر لیں بلکہ اسے پارہ پارہ کر ڈالیں۔1989 ء میںنوجوان کشمیری نسل نے تحریک ِآزادی کا آغاز کیا،تو انھیں بھی پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کی کچھ نہ کچھ مدد حاصل رہی۔ رفتہ رفتہ آئی ایس آئی بہ لحاظ نفری اور وسائل پاکستان کا سب سے بڑا انٹیلی جنس ادارہ بن گئی۔اس کا شمار دنیا کی دس بہترین خفیہ ایجنسیوں میں ہونے لگا۔مگر اسی اعزاز نے عملے کے کاندھوں پہ پاکستان ہی نہیں دفاع ِامت ِمسلمہ کا عظیم بار بھی ڈال دیا۔ 

ہوا یہ کہ سویت یونین کی شکست سے آئی ایس آئی کے حوصلے بلند ہو گئے۔تب قدرتاً بعض کی نگاہیں دنیا کے ان مسلم علاقوں کی سمت اٹھنے لگی جہاں اغیار نے قبضہ کر رکھا تھا یا وہاں آباد مسلمان ظلم وستم کا شکار تھے۔سو سوچا گیا کہ ان مسلم علاقوں میں بھی آزادی کی تحریکیں شروع ہونی چاہیں تاکہ وہاں آباد مسلمان پنجہ استبداد سے چھٹکارا پا سکیں۔اس سلسلے میں کچھ عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے۔مگر اس روش سے عالمی طاقتوں کے مفادات کو ضرب لگی،سو ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سب سے طاقتور اسلامی خفیہ ادارے،آئی ایس آئی کے خلاف پوشیدہ و عیاں جنگ چھیڑ دی۔اسرائیل اور بھارت نے ان قوتوں کا بووجوہ بھرپور ساتھ دیا۔ آج عالم یہ ہے کہ خصوصاً بھارتی و اسرائیلی حکومتیں آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔مثلاً کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی میڈیا گروپ نے اپنے صحافی پہ حملے کا الزام دھوم دھڑکے سے آئی ایس آئی پر لگایا۔ 

جلد ہی سبھی انڈین چینل یہ الزام بطور ’’بریکنگ نیوز‘‘نشر کرنے لگے۔بھارتی مبصّروں اور اینکرپرسنوں کی سرتوڑ کوشش رہی کہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے پہ الزامات کا طومار باندھ دیں۔ انھوں نے جھوٹ کو بار بار دہرایا تاکہ عوام اسے سچ سمجھنے لگیں۔ تاہم اس پروپیگنڈے کا عملی اثر نہ پڑا۔ ایک بڑی غلط فہمی پچھلے ایک عشرے سے غیرملکی اور ملکی پروپیگنڈے کے باعث پاکستانی عوام میں آئی ایس آئی سے متعلق ایک بہت بڑی غلط فہمی جنم لے چکی… یہ کہ جاسوسی فلموں کے مانند اس انٹیلی جنس ادارے کے ماہرین بھی خطرناک و عجیب و غریب ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔وہ بھیس بدلنے کے ماہر ہیں ،پلک جھپکنے میں لوگوں کو اغوا کرتے یا قتل کر ڈالتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایس آئی کا جسم نہیں دماغ سے تعلق ہے۔ادارے کے ماہرین کا بنیادی کام یہ ہے کہ بیرون و اندرون ملک سبھی پاکستان دشمن عناصر پہ نظر رکھیں،ان کے خفیہ منصوبے آشکارا کریں اور انھیں ناکام بنائیں۔

گویا یہ اعلی پیمانے پہ ذہنی صلاحتیں استعمال اور تحقیق و تفتیش کرنے والا ایلیٹ ادارہ ہے۔ ادارے سے منسلک ماہرین کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں پہ گولیاں چلاتے پھریں۔بالفرض کسی کو گرفتار کرنا ،یا کہیں حملہ آور ہونا ہے،توآئی ایس آئی یہ کام پولیس ،رینجرز یا فوج کے ذریعے انجام دیتی ہے۔اس کے افسروں حتی کہ عام مخبروں کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بغیر وارنٹ کسی کو بھی دھر لیں۔وہ کبھی ’’خواہ مخواہ ‘‘کسی کو نہیں اٹھاتے،جیسا کہ اکثر قومی انٹیلی جنس اداروں پہ یہ الزام لگتا ہے۔ اسے ’’ہر فن مولا‘‘مت سمجھیے مذید براں پاکستانیوں کا ایک طبقہ آئی ایس آئی کو تمام ملکی خرابیوں کی جڑ سمجھنے لگا ہے۔

اس طبقے کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ خفیہ ادارہ’’ہر فن مولا‘‘نہیں کہ حکومتی کرپشن یا امن و امان سے متعلق مسائل حل کر دے۔آئی ایس آئی صرف متعلقہ اداروں کو باخبر کرتی ہے کہ فلاں شخص ،گروہ یا جماعت ملک دشمن سرگرمیوں یا کرپشن میںملوث ہے۔یا فلاں جگہ بم دھماکہ ہونے کا امکان ہے۔اب کارروائی کرنا متعلقہ وفاقی و صوبائی سیکورٹی اداروں کی ذمے داری ہے۔اگر وہی اپنا فرض بجا لانے میں کوتاہی کریں ،تو آئی ایس آئی کو کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ پاک افواج اور ہمارے اینٹلی جنس ادارے سیاچن کے برف پوش پہاڑوں سے لے کر سندھ کے صحراوں اور بلوچستان کی بے آب و گیاہ وادیوں تک مادر ِوطن کا دفاع کر رہے ہیں۔دشمنوں نے چہار جانب سے پاکستان پہ یلغار کر رکھی ہے اور انھیں یہاں دور حاضر کے میر جعفروں اور میر صادقوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ جھوٹے الزمات کی یلغار ہمارے یہ دشمن صرف پاک افواج اور قومی انٹیلی جنس اداروں ہی کو اپنے مذموم عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔اسی لیے ان کی بھرپور سعی ہے کہ ان منظم و منضبط پاکستانی اداروں کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچایا جائے۔مدعا یہ ہے کہ افواج ِپاکستان اور دفاعی اداروں سے وابستہ پاکستانیوں کا جوش و ولولہ سرد پڑ ے اور ہمتیں جواب دے جائیں۔ ایسے نازک حالات میں اگر پاکستان کا ہی کوئی طبقہ افواج و انٹیلی جنس اداروں پہ بے محابہ تنقید کرنے لگے،تو قدرتاً ان پہ مذید دبائو پڑ جاتا ہے۔کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دشمن طاقتوں نے پاکستانی میڈیا سے منسلک بعض گروہوں اور صحافیوں کو خرید لیا ہے۔سو ان کا یہ وتیرہ بن چکا کہ اٹھتے بیٹھتے پاک افواج خصوصاً آئی ایس آئی پہ جھوٹے الزام تھوپے جائیں۔

مقصد یہ کہ پاکستانی عوام میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہو سکے۔ منہ توڑ جواب حیرت انگیز اور اُمید افزا امر یہ ہے کہ انتہائی طاقتور پاکستان دشمن قوتیں مسلسل کارروائیوں کے باوجود افواج ِپاک اور ہمارے انٹیلی جنس اداروں کو کمزور نہیں کر پائیں۔انھیں آج بھی منہ توڑ جواب مل رہا ہے۔بے سروسامانی سے آغاز کرنے والی آئی ایس آئی خصوصاً ایک مضبوط ادارے میں ڈھل چکی۔وسائل مہیا ہو جانے کے باوصف ادارے سے منسلک ماہرین کے جوش و جذبے اور جذبہِ حب الوطنی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج ہر فوجی اور سویلین اس انٹیلی جنس ادارے سے منسلک ہونے کو اعزاز کی بات سمجھتا ہے۔ آئی ایس آئی پہ ایک الزام یہ لگتا ہے کہ ماضی میں ایجنسی نے سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا جو اس کے دائرہ کار میں شامل نہیں۔تاہم بعض اوقات گھمبیر حالات انٹیلی جنس اداروں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ تحفظ ِوطن کی خاطر وہ سیاسی معاملات میں دخیل ہو جائیں۔ مثال کے طور پہ 1980ء تا 1990ء پاکستان قومی و عالمی سطح پہ زبردست ہلچل کا شکار رہا…افغانستان پہ روسی حملہ،کے بی جی،را اور خاد کے پاکستانی شہروں میں بم حملے،بھارتی فوج کی تاریخ میں سب سے بڑی جنگی مشق(براس ٹیک)،مقبوضہ کشمیر میں جنگ ِآزادی کا آغاز،اندرون ملک نسلی،لسانی و مذہبی فساد …ان واقعات نے خودبخود آئی ایس آئی کا دائرہ کار وسیع کر ڈالا۔ غیروں کی تنقید…

کامیابیوں کا انعام 18جنوری 2012ء کو ابیٹ آباد کمیشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے کہا تھا: ’’دشمن آئی ایس آئی کو دہشت گرد تنظیم کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں۔مگر ہم ان کی تنقید کو تعریف و توصیف اور اپنی کامیابیوں کا انعام سمجھتے ہیں۔‘‘ حقیقتاً آئی ایس آئی کو اس سے بہتر خراج ِعقیدت نہیں مل سکتا کہ دشمن بھی اس پاکستانی انٹیلی جنس ادارے کے کارناموں کو سراہنے پہ مجبور ہیں۔ادارے سے منسلک اہل وطن سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی۔مگریہ بھی یاد رہے کہ وہ جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ’’غیر مرئی‘‘محاذ جنگ میں دشمنان ِوطن سے نبردآزما ہوتے اور خاموشی سے،چپ چاپ شہید ہو جاتے ہیں۔ان گمنام شہداء ا ور مجاہدوں کو اپنی دعائوں میں ضرور یاد رکھئیے۔

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments