All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ضمیر اور مفاد...........شاہ نواز فاروقی



ضمیر اور مفاد
شاہ نواز فاروقی
ایک اعتبار سے دیکھاجائے تو زندگی کے دو قطبین یا دو Polesہیں۔ایک ضمیر اور دوسرا مفاد۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گیت ضمیرکے گاتاہے مگر زندگی اپنے مفادات کے تحت بسرکرتاہے۔ اس کے ہاتھ میں پرچم ضمیرکا ہوتاہے لیکن پیش قدمی وہ مفادات کی جانب کرتاہے۔ اس کی آنکھوں میں خواب ضمیرکے ہوتے ہیں مگر اس کی زندگی پر حکومت مفادات کی ہوتی ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال فیض احمدفیض ہیں۔ فیض احمد فیض آزادی کے شاعرتھے۔ مزاحمت کے شاعرتھے۔ انقلاب کے شاعرتھے۔ انہوں نے ویت نام میں امریکا کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی۔ اس کے لیے نغمے لکھے۔ مضامین تحریرکیے۔ بیانات جاری کیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ویت نام ایک کمیونسٹ ملک تھا اور امریکا نے ایک کمیونسٹ ملک کی حرمت پامال کی تھی۔ چنانچہ ان کے لیے ویت نام کی مزاحمت باطل کے خلاف حق کی مزاحمت تھی۔ غلامی کے خلاف آزادی کی معرکہ آرائی تھی۔ مفادات کے خلاف ضمیرکی جنگ تھی۔ فیض احمد فیض نے فلسطین کی تحریک مزاحمت کی حمایت کی اس کے لیے گیت لکھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کی تحریک آزادی کے قائد یاسرعرفات سوشلسٹ تھے اور ان کی شہرت روس نواز رہنما کی تھی۔ لیکن سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو فیض کا یہ کردار قصہ پارینہ بن گیا۔ انہوں نے افغانستان کی جدوجہد آزادی کے لیے نہ کوئی نظم لکھی۔ نہ کوئی مضمون تحریرکیا نہ کوئی بیان جاری کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں مداخلت کرنے والا سوویت یونین فیض کا نظریاتی کعبہ تھا اور اس کے خلاف آزادی کی جدوجہدکرنے والے اسلام کا پرچم لیے کھڑے تھے۔ فیض سے اس بارے میں کئی بار سوالات بھی کیے گئے مگر وہ ہربارگول مول جواب دے کر رہ گئے۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کو پوری مغربی دنیاکی زبردست حمایت حاصل ہوئی۔ مغربی دنیا کے سیاست دان‘ دانشور اور صحافی سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو مجاہدین کہتے۔ انہیں فریڈم فائٹرکہہ کر پکارتے۔ گلبدین حکمت یاراوراحمد شاہ مسعود امریکا اور یورپ کے پریس میں ہالی ووڈ کے سپراسٹارزکی طرح رپورٹ ہوتے۔ امریکا کے صدر رونلڈ ریگن نے ایک بار مجاہدین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجاہدین کا اخلاقی مقام امریکا کے بانیان کے مساوی ہے۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے ساتھ ہی امریکا اور یورپ کے رہنماوں ‘دانشوروں اور صحافیوں کے اذہان پر ان کے نام نہاد قومی مفادات نے قبضہ کرلیا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مجاہدین دہشت گردبن گئے۔ حریت پسندرجعت پسند کہلانے لگے۔ امریکا کے بانیوں کے مساوی مقام کے حامل لوگ درندے بن گئے۔ انسانی تہذیب کی بقاء کی جنگ لڑنے والے تہذیب دشمن ٹھہرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کے قلوب اور اذہان پر ضمیرکے بجائے مفادات کا غلبہ ہوگیا۔ مفادات کا قطب ضمیر کے قطب کو نگل گیا۔ یہ مجموعی طورپر انسانیت کی ایک افسوسناک تصویرہے۔ لیکن زندگی کبھی استثنائی مثالوں سے خالی نہیں ہوتی۔ امریکا کی 30 کروڑ کی آبادی میں ایک نعوم چومسکی بھی ہوتے ہیں۔
 

Post a Comment

0 Comments