All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

اس سیاست کو ہم کیا کریں ؟

ایک طرف چور جن کی چوری کیا ڈکیتی مستند اورمانی ہوئی ہے۔ دوسری طرف پرلے درجے کے نالائق اوربیکار۔ قومی اُفق پہ اگر یہ چوائس ہو تو انسان کہاں جائے؟ سیاست میں دلچسپی تب برقرار رہتی ہے جب کوئی نئی چیز ہو۔ حالات کی سنگینی نئی ہو گی لیکن یہ چہرے جو ہم دیکھتے ہیں ان کو دیکھتے دیکھتے اعصاب تھک چکے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب تو تب بنتا ہے کہ نئے خیالات سامنے آئیں اور انہیں پرچار کرنے والے بھی نئے ہوں۔ ہماری عجیب قسمت ہے کہ وہی پرانے ایکٹر آرہے ہیں اور جو نئے آئے ہیں انہوں نے بھی کمال کر دیا ہے۔ اُن کے پلے بھی کچھ نہیں۔ تو اس ملک کے عوام جنہوں نے اس صورتحال کو بھگتنا ہے وہ جائیں تو جائیں کہاں؟ جو نئے چہرے آبھی رہے ہیں اُن کی وراثتیں پرانی ہیں۔ اُن کے پاس بھی کہنے کو کچھ نہیں۔ ایک جماعت نے رَٹا لگایا ہوا ہے ووٹ کو عزت دو۔ مجموعی طورپہ یہ جماعت 35-30 سال اقتدارمیں رہی ہے۔

اب جا کے اس سے جان چھوٹی ہے۔ ان سے کوئی پوچھے تو سہی کہ ان 35 سالوں میں آپ نے کیا کیا؟ اقتدار سے فارغ ہوئے ہیں توانہیں اسٹیبلشمنٹ یاد آگئی ہے۔ خانوادے اسی اسٹیبلشمنٹ کے ہیں۔ انگلی پکڑ کے ان کو سیاست اوراقتدار میں لایا گیا۔ سیاست میں جب ان کے پہلے قدم لگے تو لوکل قسم کے سرمایہ دار تھے۔ اقتدار میں رہے تو ملک دیوالیہ پن کی حدوں کے قریب پہنچ گیا لیکن خود لوکل سرمایہ دار سے گلوبل سرمایہ داربن گئے ۔ اتفاق فاؤنڈری چلتی تھی تو رہنے کی جائیدادیں ماڈل ٹاؤن لاہور میں تھیں۔ اب جائیدادوں کا شمار کرنا مشکل ہے۔ لیکن پھر بھی رو رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی ہو گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے انہیں سرنگوں ہونا چاہیے کیونکہ وہاں سے ہی سب کچھ پایا ‘ کیا سیاسی اجارہ داری اورکیا سرمایہ دارانہ ایمپائر۔ لیکن اب تماشا دیکھیں کہ خود تو باہر نکل گئے ہیں اوراپنی جماعت کو مزاحمت کا درس دے رہے ہیں۔ انہیں بتانے کی کیا ضرورت ہے‘ خود نہیں جانتے کہ ان کی جماعت کا تعلق مزاحمت نامی چیز سے دور کا بھی نہیں۔ ان کے لوگ اقتدار کے لوگ ہیں۔ اقتدار میں ہوں تو ان سے کوئی جابر نہیں۔ اقتدار کے بغیر مارے مارے پھرتے ہیں۔

جو دوسری جماعت ہے اس کے بانی ‘ ذوالفقار علی بھٹو ‘ بہت خوبیوں کے مالک تھے ۔ غلطیاں بھی اُن کی بہت تھیں؛ تاہم انہوں نے کیا بھی بہت کچھ۔ لیکن قسمت کا کھیل دیکھیے کہ اُس پارٹی کی وراثت کن ہاتھوں میں آگئی اور ان ہاتھوں نے پھر ملک کا وہ حشر کیا کہ ہم تو یاد کرتے ہیں تاریخ بھی یاد کرے گی۔ البتہ ایک فرق ہے‘ بھٹو کی وراثت والے اتنی چیخ وپکار نہیں کرتے۔ حالات خراب ہوں تو بہت کچھ سہہ لیتے ہیں‘ لیکن فاؤنڈری کی وراثت والے اقتدار سے فارغ ہوں تواُن کی چیخ وپکار تھمنے کا نام نہیں لیتی ۔ اُن سے سوال بنتا ہے کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ فرض کریں کہ اقتدار اُنہیں پھر ملتا ہے ‘ کریں گے کیا ؟ ہمارے عوام کا بھی جواب نہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ شریف اگر کھاتے تھے تو لگاتے بھی تھے۔ لگاتے کیا اپنی ذاتی پونجی سے تھے؟ وہی قوم کا پیسہ اور اُسی کے زور پہ تمام شاہ خرچیاں۔

قوم جیسی بھی ہو اب مزید بہکاوے میں آنے کی نہیں ۔ قوم کا مسئلہ نہ اسٹیبلشمنٹ ہے نہ ووٹ کی عزت ۔ فی الوقت بیشتر قوم مہنگائی کی وجہ سے ہلکان ہو رہی ہے ۔ عام اشیا کی قیمتیں اتنی اڑان نہ کر رہی ہوتیں تو فارغ کیے گئے سابق حکمرانوں کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہ ہوتا۔ اس وقت ملک میں جو بھی سیاست ہے وہ مہنگائی کے زور پہ چل رہی ہے ۔ لیکن کیا مہنگائی کا یہ حل ہے کہ ماضی کے حکمران جنہوں نے ملک کا حشر کیا وہ واپس آجائیں؟ ایسے میں ہم جیسے کیا کریں ؟ آج کے دور میں ابلاغ کے نئے ذرائع آچکے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے‘ لیکن ہم جیسوں کی عادات پرانی ہیں اورہم پرانے طریقوں کے پجاری ہیں۔ ہم نے صبح اخبار بینی کرنا ہے‘ گو کہ آج کی اخبارات میں پڑھنے کو کچھ زیادہ نہیں ملتا۔ کالم نویسی بھی کرنی ہے کیونکہ اور کسی چیز کا ڈھنگ آتا ہی نہیں۔ سیاست بیکار اور بے مزہ ہو بھی جائے تو ہم اس کا پیچھا چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ روزی روٹی کا مسئلہ ہے ۔

میڈیا کا ایک ہی آکسیجن ہے اوروہ ہے سیاست۔ لیکن جیسے اوپر رونا رویا پاکستانی سیاست اُن ہاتھوں میں آچکی ہے کہ مزدوری کا مسئلہ نہ ہو تو سیاست پہ تبصرہ کرنے سے ہمیشہ کیلئے توبہ کر لیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آمریتوں میں سیاست زیادہ دلچسپ ہوا کرتی تھی ۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت تھی توجمہوریت کے نعرے اٹھانے میں مزہ آتا تھا۔ پیپلزپارٹی یا ایم آرڈی کے جلسے ہوتے تو اس طرف دوڑے جاتے۔ ایم آر ڈی کا چھوٹا سا جلسہ لاہور میں ہوتا تو جہاز پکڑ کے اسلام آباد سے حاضری دینے جاتے۔ اُس وقت چونکہ مقامی میڈیا آزاد نہیں تھا تو غیرملکی ذرائع ابلاغ کی اہمیت زیادہ تھی ۔ غیر ملکی صحافیوں کو ہم آمریت کے نقصانات گنواتے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ پاکستان کی ہر مرض کا علاج جمہوریت میں پنہاں ہے ۔ یہی کیفیت جنرل مشرف کے دور میں رہی۔ کیسے کیسے گُن ہم جمہوریت کے گاتے تھے اورکیسے تبرّ ے آمریت پہ کستے۔ 

یہ اور بات ہے کہ جنر ل مشرف کی آمریت خالص آمریت نہ تھی۔ بہت حد تک پریس جو چاہے لکھ سکتا تھا۔ اور گو آج کے بہادر صحافی ماننے سے ہچکچاتے ہیں پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی اجازت مشرف دور میں ملی تھی۔ یعنی آج کا الیکٹرونک میڈیا اس دور کی پیداوار ہے ۔ اس سے پہلے صحافت کا پیشہ تنگ دامنی کا شکار ہوا کرتا تھا۔ کچھ پیسے آئے تو ٹی وی چینلوں کی وجہ سے۔ جیسا عرض کیا‘ اُن کی اجازت جنرل صاحب کی طرف سے آئی تھی۔ لیکن پھر بھی جمہوریت کے نعرے لگتے اور ہم جیسے جذبات کے مارے سمجھتے کہ ایک تاریخی جدوجہد میں ہم اپنا حقیر حصہ ڈال رہے ہیں۔ وکلا موومنٹ کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ کیا وقت تھا وہ اور کیسے کیسے مُکے ہم جیسے ٹی وی کیمروں کے سامنے لہراتے ۔ یعنی قومی زندگی میں کچھ دلچسپی کچھ تڑپ کچھ جذباتیت تھی ۔ جمہوریت جن ہاتھوں چڑھی انہوں نے ہر جذبے کو برباد کر کے رکھ دیا۔ 

کیڈٹ کالج پٹارو میں جب آصف علی زرداری زیر تعلیم تھے (حالانکہ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ انہوں نے وہاں پڑھا کیا ہو گا؟) اُن کا کوئی ہم عصر سوچ سکتا تھا کہ یہ صاحب ایک دن صدر ِ پاکستان ہوں گے ؟ لیکن یہ انہونی مملکت ِ خداداد میں ہوئی۔ شریف خاندان اقتدار سے ایسے چمٹا رہے گا ‘ یہ بھی کوئی سوچ سکتا تھا؟ اور جب قوم ان دو اطراف کے شاہسواروں کو آزما چکی تو نجات دہندہ کے طورپہ کون نمودار ہوتے ہیں؟ وہ جن کو قوم اب بھگت رہی ہے ۔ آسمانوں کی مار ہے یا ہمارے نصیب ہی ایسے ہیں؟ یہ نہیں کہ کوئی اتاتُرک یا صلاح الدین ایوبی آئے لیکن کچھ تو ڈھنگ کی قیادت ہو بیشک اوسط درجے کی۔ ان حالات میں سیاست سے اُکتا نہ جائیں تو کیا کریں۔ دیگر معاشروں میں غم ہوں تو غم مٹانے کے ذرائع بھی میسر ہوتے ہیں۔ یہاں عجیب کیفیت ہے ‘ تباہی پھیلا ئے جاؤ اور غم مٹانے پہ بھی پابند ی در پابندی لگا دو ۔ پابندی لگنی چاہیے تو بے ایمانی پہ۔ ایسا ہوتا نہیں جس کے نتیجے میں بے ایمانی کاراج ہر اطراف دیکھا جاسکتا ہے ۔ آوارہ منش لوگ پھر کیا کریں؟ پوری تاریخِ انسانی میں ایسے لوگوں کے پاس یہی ذریعہ احتجاج رہا ہے کہ غم مٹانے کی طرف جائیں۔ یہاں اس جستجو کو بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔

ایاز امیر

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments