All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

جنابِ شیخ کی کتابِ زندگی


شیخ رشید کا کوئی انکار کرے یا اعتراف، ان سے اتفاق کرے یا اختلاف، ان سے محبت کا دم بھرے یا نفرت کے بخار میں مبتلا رہے، ان کو داد دے یا بے داد، ان کی بلائیں لے یا اپنی بلائیں ان کے سر لاد دے، اِس کی تردید نہیں کی جا سکتی کہ وہ پاکستانی سیاست کا ایک منفرد کردار ہیں۔ اپنی مثال آپ۔ انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں۔ سونے تو کیا چاندی کا چمچہ بھی منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ایک عام سے گھرانے میں ایک عام سے بچے کی طرح اِس دُنیا میں وارد ہو گئے۔ گورے چٹے تھے، انہیں دیکھ کر دیکھتے چلے جانے کو جی چاہتا تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ وہ ''جماندرو سیاستدان‘‘ ہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی میں ان کے اندرکے سیاستدان نے اپنے آپ کو متعارف کرانا شروع کر دیا تھا۔ پاکستانی سیاست میں آج کوئی شخص ایسا نہیں‘ جو ایوب خان کے خلاف نعرہ زن رہا ہو، اور پھر مسلسل اپنے وجود کا احساس دلاتا چلا گیا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کو انہوں نے زچ کیا، جنرل ضیاالحق کو بھی کھٹکتے رہے، محمد خان جونیجو کے ساتھ مصافحہ کیا، نوازشریف کے ساتھ معانقہ فرما ہوئے، بلکہ یہ کہیں کہ ''جپھیاں‘‘ ڈالیں۔ 

جنرل پرویز مشرف کی نگاہ میں پسندیدہ ٹھہرے۔ عمران خان کے ساتھ آنکھ لڑی تو انہی کے ہو رہے۔ عمران خان کی سیاست نے شیخ صاحب سے فیض حاصل کیا یا شیخ جی نے ان سے فائدہ اٹھایا ہے، اس بارے میں ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے گٹھ جوڑ نے دونوں کو بہت کچھ دیا ہے۔ سیاست میں یکطرفہ ٹریفک نہیں چلتی۔ نوازشریف کے خلاف دونوں کے اتحاد ہی نے انہیں ایوانِ اقتدار سے نکلنے پر مجبور کیا، اور اب سیاست میں ان کا راستہ روک کر کھڑے ہیں۔ شیخ صاحب راولپنڈی کی اسی لال حویلی میں رہائش پذیر ہیں، جہاں ان کا بچپن اور لڑکپن گزرے۔ انہوں نے اپنا علاقہ بدلا، نہ ووٹر بدلے، نہ طور طریقے بدلے، 85ء سے اب تک یہیں سے انتخاب میں حصہ لیتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک دوبار ناکامی کا منہ بھی دیکھا لیکن اسے دِل سے نہیں لگایا، کامیابی کا تسلسل برقرار رہا، اور آج بھی وہ راولپنڈی شہرکی نمائندگی قومی اسمبلی میں کر رہے ہیں۔ 

شیخ صاحب بڑے پُرزور بلکہ منہ زور مقرر ہیں۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم ان کے سرپرست تھے۔ چودھری ظہورالٰہی شہید ان پر فدا تھے، مجید نظامی مرحوم ان کے قدردان تھے، اور ہمارے جیسے عامی بھی، ان کیلئے دُعا گو رہے۔ وہ جلسوں کو لوٹتے رہے، ٹی وی سکرین پر چھائے رہے، پروگراموں کی ریٹنگ بڑھاتے رہے۔ انہوں نے زبان سے بندوق کا کام لیا، بعض اوقات اسے ہتھوڑا بھی بنا ڈالا، جو منہ میں آیا، کہہ ڈالا، اپنے لگائے گئے زخم پر مرہم رکھنے کی ضرورت سے بے نیاز رہے۔ حرف معذرت ان کی لغت میں نہیں۔ شیخ صاحب اسیر بنے، وزیر بنے، پھر اسیر ہوئے، پھر وزیر ہوئے، ان کے خلاف مقدموں پر مقدمے بنے۔ وہ جو مولانا ظفرعلی خان نے کہا تھا کہ؎

بچپن ہی سے لکھی تھی مقدر میں اسیری
ماں باپ کہا کرتے تھے، دِل بند جگر بند

وہ شیخ صاحب پر بھی صادق آتا ہے۔ نابالغ تھے تو جیل جانا شروع کیا اور چند برس پہلے تک یہ عادت برقرار تھی۔ انہوں نے ایوانِ اقتدار کا لطف خوب اٹھایا، اور کوچۂ اختلاف میں بھی نقش جمایا۔ ان کی آنکھوں نے بہت کچھ ایسا دیکھا، جو بہت کم کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ انکے کانوں نے بہت کچھ ایسا سنا‘ جس کی سن گن بہت سوں کو نہیں ہو پاتی۔ انہوں نے اپنے مشاہدے اور تجربے کو الفاظ کے کوزے میں بند کر کے پاکستانی سیاست اور اپنی زندگی کے کھلے اور چھپے گوشوں تک اہلِ وطن کی رسائی ممکن بنا دی ہے۔ 

انکی زندگی کا اچھا خاصا حصہ کھلی کتاب کی طرح ہے، انکی خود نوشت میں دھماکہ خیز انکشافات ہیں تو ان کے تندو تلخ تبصرے بھی موجود ہیں۔ وہ بے دھڑک اپنی بات کہہ گزرتے ہیں، حرف مطبوعہ میں بھی وہی شیخ رشید نظر آئے گا، جو جلسے میں یا ٹی وی سکرین پر نظر آتا ہے۔ انہیں دوستی نبھانا آتا ہے اور دشمنی کا حق بھی ادا کر سکتے ہیں‘ چھپ کر وار کرنے کے قائل نہیں، حریف کو للکارتے، میدان میں بلاتے، پھر اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ وہ ''وکٹ کے دونوں طرف نہیں کھیلتے‘‘۔ ''پنڈی بوائے‘‘ سے فرزندِ پاکستان بننے تک انہوں نے اپنا کلچر بدلے بغیر بہت کچھ بدل ڈالا۔ ان کی خود نوشت ان سیاسی کارکنوں کیلئے نصابی کتاب کی اہمیت رکھتی ہے، جو وسائل کی کمی سے گھبرا کر حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی کتابِ زندگی ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہی ہے؎

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دِل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

مندرجہ بالا سطور شیخ رشید کی حال ہی میں شائع ہونے والی خود نوشت ''لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ کے دیباچے کے طورپر لکھی گئی تھیں۔ ''دُنیا پبلشرز‘‘ کے تحت شائع ہونے والی اس پہلی کتاب کے دو ایڈیشن فروخت ہو چکے ہیں، اور تیسرے ایڈیشن کی تیاری جاری ہے۔ کم کتابوں کوایسی پذیرائی حاصل ہوئی ہوگی، جیسی ان کی تصنیف کے حصے میں آئی ہے۔ ملکی سیاست اور اس کے حریفوں اور حلیفوں سے قطع نظر گزشتہ چند روز کے دوران شیخ صاحب نے ایک بہت ہی اہم معاملے کی طرف اہلِ وطن کی توجہ مبذول کرائی ہے، اور وہ ہے وطنِ عزیز میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت۔ شیعہ اور سنی تصادم پیدا کرنے والے سرگرم ہو چکے ہیں، غیر ذمہ دار عناصر جو طرح طرح کے مقدس لبادے اوڑھے ہوئے ہیں، آگ بھڑکانے میں لگے ہیں۔ 

مسلمانوں میں مختلف فقہی مسالک صدیوں سے موجود ہیں۔ اختلاف رائے ایک حد میں رہے تو یہ باعثِ رحمت ہوتا ہے کہ اس سے سوچ کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ مختلف واقعات کی تعبیریں مختلف ہو سکتی ہیں، مختلف نکات کی تشریحات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن ان کو کفر اور اسلام کا معاملہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خوب سے خوب تر کی تلاش (اپنے اپنے ذوق کے مطابق) جاری رکھنے والے ایک دوسرے سے مختلف راستوں پر جا نکلتے ہیں، جیسے کسی مقدمہ قتل میں ایک عدالت ایک شخص کو بری کر دیتی ہے تو اس سے اعلیٰ عدالت اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیتی ہے۔ دونوں کی بنیاد مقدمے کی ایک ہی فائل میں بیان کردہ حقائق پر ہوتی ہے۔ فقہی اختلافات کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ ایک بار رسول اللہؐ نے ایک وفد ایک مہم پر روانہ کیا تو ہدایت کی کہ نمازِ عصر منزل پر جا کر پڑھنا ہے۔ سفر کے دوران تاخیر ہوئی، نماز کا وقت آیا تو ارکان میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ 

ایک رائے تھی کہ حضورؐ نے جو فرمایا، وہ جلد پہنچنے کی تاکید کیلئے تھا کہ وقت ضائع نہ کیا جائے؛ چنانچہ اس رائے کے حاملین نے نماز ادا کر لی، دوسری رائے یہ تھی کہ الفاظ واضح ہیں، اِس لئے نماز بہرطور منزل ہی پر جا کر پڑھی جائے گی، وفد واپس آیا تو یہ معاملہ حضورؐ کی خدمت میں رکھا گیا، آپ مسکرا دیے اور کسی کو بھی حکم عدولی کا مرتکب قرار نہیں دیا۔ دونوں ہی فرمانبردار تھے۔ فقہی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر ان کیلئے مرنے مارنے پر اتر آنے کی اسلام تو کیا انسانیت بھی اجازت نہیں دے سکتی۔ شیخ رشید نے جس خطرے کی نشاندہی کی ہے، وہ خیالی نہیں حقیقی ہے۔ ہمارے اردگرد ہی نہیں، ہمارے سروں پر بھی منڈلا رہا ہے، سیاسی اختلافات اور وابستگیاں جو بھی ہوں، فرقہ وارانہ لہر کو بھڑکنے سے روکنا ہر مسلمان اور ہر پاکستانی پر لازم ہونا چاہیے۔ اس کیلئے سب سر جوڑ کر بیٹھیں، تو سب کے سر سلامت رہیں گے۔ شیخ رشید وزیراعظم عمران خان کو اس معاملے کیلئے پیش قدمی پر آمادہ کریں۔ ان کا ہاتھ بڑھے گا، تو اسے تھامنے والے بھی آگے بڑھ سکیں گے۔

مجیب الرحمان شامی

بشکریہ دنیا نیوز
 

Post a Comment

0 Comments