All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کمانڈو جرنیل پر تا حیات پابندی برقرار

عدالت عظمٰی کی جانب سے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی مشروط اجازت منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد مشرف کی تا حیات نااہلی کا 2013 ء میں کیا گیا فیصلہ بحال ہو گیا ہے۔
یہ فیصلہ 31 جولائی 2009 ء کے عدالتی فیصلے کی روشنی میں کیا گیا تھا جس میں بطور فوجی آمر پرویز مشرف کی جانب سے ہنگامی حالت کے نفاذ کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ کے چار رکنی بنچ نے تا حیات نا اہلی کے خلاف مشرف کی اپیل بھی خارج کر دی تھی اور 2013 ء کے انتخابات کے لیے کراچی، حیدرآباد اور چترال کے حلقوں میں داخل کرائے گئے انکے کاغذات نامزدگی بھی خارج کر دیے گئے تھے۔

تاہم عدالت عظمی نے مورخہ 7 جون کو آئندہ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی کہ وطن واپسی کی صورت میں انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ مورخہ 11 جون کو مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا عدالتی حکم جاری کیا گیا۔ اس سے قبل وزارت داخلہ نے نادرہ اور دیگر متعلقہ اداروں کو انکا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ آج مورخہ چودہ جون کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ کو پرویزمشرف کے وکیل کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ انکے موکل "عید کی تعطیلات" اور "موجودہ صورتحال" کے سبب وطن واپس نہیں آ پائیں کے۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو پاکستانی وقت کے مطابق دو بجے دوپہر تک عدالت میں حاضر ہونے کی مہلت دی تھی۔ مورخہ 13 جون کو سپریم کورٹ نے انکی وطن واپسی کے حوالے سے گردش کرنے والی متضاد اطلاعات کے حوالے سے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ "فوجی کمانڈو اسقدر    خوف ذدہ کیوں ہے"۔ اس سے قبل مورخہ 12 جون کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ "مشرف کی واپسی کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ واپس آئیں اور دکھائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں۔"

پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو جولائی 2017 میں نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اسی تناظر میں نواز شریف کو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ اس فیصلے نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی۔ دوسری جانب نگران حکومت نے پرویز مشرف پر غداری کے مقدمہ کے لئے قائم خصوصی بنچ کی نئے سرے سے تشکیل کرتے ہوئے جسٹس نزر اکبر اور جسٹس طاہرہ صفدر کو اراکین اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاورعلی کو سربراہ مقرر کر دیا تھا۔ اس سے قبل 30 مارچ کو بنچ کے سابق سربراہ جسٹس یحیی آفریدی نے خود کو اس بنچ سے الگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بیشتر سیاسی حلقوں کی جانب سے عدالت عالیہ کے مندرجہ بالا فیصلوں پر حیرت کا اظہار کیا گیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے سینیئر راہنماؤں کی جانب سے ان فیصلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

سابق وزیر اعظم اور تا حیات نا اہل قرار دیے گئے مسلم لیگ نون کے تا حیات قائد، میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کسی ایسے شخص کو اس نوعیت کی پیشکش کیسے کر سکتے ہیں جس پر آئین پامال کرنے کے جرم میں سنگین غداری کے مقدمے ہوں۔ انکا سوال تھا کہ " کیا ملکی آئین میں یہ گنجائش ہے کہ ایک ایسے فوجی آمر کو اس نوعیت کی مراعات دی جائیں جو سنگین غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہو، جس پر اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام ہو، جو اعلی عدالت کے ججوں کو گرفتار کرنے کا مرتکب ہوا ہو اور جو لال مسجد آپریشن میں ملوث رہا ہو۔ دوسری طرف اسی عدالت نے مجھے اپنے بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے کی پاداش میں وزارت عظمی سے برطرف کر دیا، انتخابات سے تا حیات نا اہل کر دیا اور اپنی جماعت کی سربراہی سے ہٹا دیا۔"

پیپلزپارٹی کے سینئر راہنما اور سینٹ کے سابق چیئرمین، رضا ربانی نے عدالت کے مذکورہ بالا فیصلوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ، "یہ سابق فوجی آمر 1973ء کے آئین کی دفعہ 6 کے تحت ایک خصوصی عدالت میں سنگین غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہے۔ اس نے بیماری کا بہانہ بنا کر پاکستان کی اعلی عدالت کو گمراہ کیا اور اسے ایک سے زیادہ مقدموں میں "اشتہاری" قرار دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین توڑنے اور معطل کرنے والوں کو پاکستان میں عدالتی مراعات دی جا رہی ہیں۔" قومی اسمبلی کے سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی ان فیصلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ تاہم انکا دعوی تھا کہ "مشرف اعلی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔"

بشکریہ DW اردو
 

Post a Comment

0 Comments