All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ایل او سی پر کشیدگی، کیا پاکستان کے خلاف کوئی سازش ہے؟

بھارت کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں چار پاکستانی سپاہیوں کی ہلاکت پر پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور کئی ناقدین کے خیال میں یہ کشیدگی پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے۔ کئی سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بھارت کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ ملک کر اسلام آباد کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ 

بھارت، اسرائیل اور امریکا ایک طرف چین کی ابھرتی ہوئی طاقت سے پریشان ہیں اور دوسری طرف امریکا بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیونکہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی چین اور روس سے قربت بڑھی ہے اور سی پیک کے بعد اس قربت میں مزید مضبوطی آنے کا امکان ہے تو واشنگٹن اور نئی دہلی مل کر سی پیک کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں تاکہ سی پیک کو ناکام کر کے ایک طرف پاکستان کو معاشی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جاسکے اور دوسری طرف چین کے اثر ورسوخ کو خطے میں بڑھنے سے روکا جا سکے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ان ہلاکتوں پر بہت زیادہ غصہ ہے۔ ’’بھارت اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے، جس سے شہری آبادی گزشتہ دو برسوں میں بہت متاثر ہوئی ہے لیکن پاکستان اس طرح کی فائرنگ نہیں کر سکتا کیونکہ سرحد کے دونوں اطراف کشمیری رہتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور کشمیری آبادی کا بعض اوقات زیادہ نقصان ہو جاتا ہے۔‘‘ دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم بھی سردار عتیق کی اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستا ن کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ ’’گیارہ جنوری کو سی آئی اے چیف نے نئی دہلی کا دورہ کیا ہے اور را کا چیف ان کے ساتھ کابل گیا تھا۔ اب اسرائیلی وزیرِ اعظم بھارت کا دورہ کر رہا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تینوں ممالک پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ بھارت کو معلوم ہے کہ ہم نے مغربی سرحد پر بھی فوج لگائی ہوئی ہے اور فاٹا، کے پی اور بلوچستان میں بھی ہم مصروف ہیں، اس لیے وہ لائن آف کنڑول پر مسلسل گڑ بڑ کر رہا ہے۔‘‘

دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں مودی کے آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔’’مودی نے اقتدار میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو سبق سکھائے گا۔ اس کے آنے سے پہلے ایل او سی پر کبھی کبھار کشیدگی ہوتی تھی لیکن اب اس میں بہت شدت آگئی ہے۔ اس کشیدگی کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھارت کشمیر سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے اور دوسرا ایل او سی پر عام شہریوں کو مار کر وہ کہتا ہے کہ ہم نے کشمیر میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کو مارا ہے۔ نئی دہلی سفارتی محاذ پر بہت سر گرم ہے۔ اس لیے اس کے اس دعویٰ پر بہت سارے ممالک یقین بھی کر لیتے ہیں جب کہ ہم اس حوالے سے بہت کمزور ہیں۔‘‘

ان کے خیال میں بھارت اور افغانستان پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں جب کہ امریکا اور اسرائیل ان کی معاونت کر رہے ہیں۔’’میرا خیال ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ امریکا ہمارا اتحادی نہیں ہے ۔ وہ بھارت کا دوست ہے۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے ، جسے ہم جتنی جلدی سمجھ لیں ہمارے لیے بہتر ہے۔ موجودہ صورتِ حال کو ٹِلرسن کے بیان کی روشنی میں دیکھیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اپنے علاقے کھو سکتا ہے اور اسے ان امریکی سیاست دانوں کے بیانات کی روشنی میں پرکھیں، جس میں انہوں نے ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے بھارت کو استعمال کرے۔ بھارت امریکا کے ذریعے ہمیں جوہری ہتھیاروں سے محروم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ ہمیں سبق سکھا سکے۔ اسی لیے ہمارے ہتھیاروں کے حوالے سے بار بار پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔‘‘

لیکن کچھ ناقدین کی رائے میں نئی دہلی حکومت یہ سب کچھ صرف اندرونی سیاسی مفادات کے لیے کر رہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایل او سی پر پاکستانی سپاہیوں کی شہادت بہت افسوس ناک ہے۔ میرے خیال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو فرقہ وارانہ کشیدگی سے فائدہ ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں جتنی زیادہ فرقہ وارانہ کشیدگی یعنی ہندو اور مسلمانوں کے درمیان جتنی کشیدگی ہو گی، ان کو اس سے اتنا ہی فائدہ ہو گا۔ کیونکہ وہ پاکستان اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں کرتے، تو ان کے خیال میں جتنی یہ دشمنی بڑھتی ہے، اتنا ہی ان کو انتخابی سیاست میں فائدہ ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ انہوں نے بہار اور گجرات کے انتخابات میں بھی یہ ہی طریقہ اپنایا۔ تو میرے خیال میں اس کشیدگی کا تعلق بھارت کی اندرونی سیاست سے زیادہ ہے۔‘‘ پاکستان نے ان مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف بھارت سے آج بھر پور احتجاج کیا۔ دفتر خارجہ نے آج بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو طلب کیا اور ان اشتعال انگیز خلاف ورزیوں کی بھر پور مذمت کی۔

بشکریہ DW اردو
 

Post a Comment

0 Comments