All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ستر برس میں بیشتر وقت پاکستان پر آمریت کا سایہ ہی رہا

1947 میں قیامِ پاکستان سے 2017 میں اس کی 70 ویں سالگرہ تک اس ملک میں فوج تقریباً ساڑھے تین دہائیوں تک برسراقتدار رہی ہے۔ اس عرصے کے دوران میں پاکستان میں چار فوجی ادوار رہے جب زمامِ اقتدار جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے پاس تھی۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک ہر دور میں ایک ہی بیانیہ سننے کو ملتا رہا، جس میں سویلین حکومت کی نااہلی، کرپشن اور ملک کو لاحق خطرات کے دعوے سر فہرست تھے۔ دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ اس ملک میں فوج یہ چاہتی ہے کہ تمام معاملات اس کے مشورے سے چلائے جائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'خارجی سکیورٹی کا بوجھ ان پر ہے، داخلی سلامتی اور انسداد دہشت گردی بھی فوج کر رہی ہے۔ سویلین حکومت کا کردار محدود ہے لہذا جب تک مشاورتی عمل قائم رہتا ہے، اس وقت تک معاملات ٹھیک رہتے ہیں۔' حسن عسکری کے مطابق 'دوسرا اہم ایشو بجٹ کے معاملات ہیں کہ وہ مشاورت سے ہوں، تیسرا یہ ہوتا ہے کہ خود کو بااختیار دکھانے کے لیے کچھ وزیر غیر ضروری طور فوج پر تنقید کرتے رہتے ہیں جس سے تعلقات میں خرابی آتی ہے۔'
حال ہی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نااہلی کے بعد احتجاجی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد سے لاہور پہنچے ہیں۔ اس سفر کے دوران ان کی تقاریر میں بالواسطہ اور کہیں کہیں بلاواسطہ طور پر بھی فوج اور عدلیہ کو ان کی برطرفی کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا۔

نواز شریف کی بذریعہ عدالت برطرفی نے ملک میں ایک بار پھر سویلین بالادستی کی بحث کو جنم دیا ہے۔ نواز شریف دو مرتبہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں آئے، یہ تیسرا موقع تھا کہ انہیں منصب سے ہٹنا پڑا، لیکن اس بار تعلقات میں خرابی کی کیا وجوہات رہیں؟ دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا خیال ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ خارجہ پالیسی تھی۔ ان کے مطابق 'نواز شریف خارجہ پالسی کو آہستہ آہستہ تبدیل کرنا چاہ رہے تھے اور قومی سلامتی کا ایک نیا بیانیہ بنا رہے تھے جس میں ہندوستان اس بیانیے کا مرکز نہیں رہتا۔ یہ فوج کی دکھتی رگ تھی اور اس لیے میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا تاکہ میاں صاحب کو ہٹایا جا سکے۔' میاں نواز شریف کی برطرفی کے بعد بعض تجزیہ نگار یہ بات بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔

دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز کہتے ہیں کہ ملٹری اور سویلین تضاد کی بنیادی وجہ قول اور فعل میں فرق بھی ہے۔ 'نظام صرف باتوں سے نہیں، عمل سے قائم ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف سویلین حکومت یا فوج کی غلطی ہے بلکہ یہ معاشرے کی مجموعی ذمہ داری بنتی ہے۔ 'پاکستان کی بنیادی ضرورت گڈ گورننس ہے۔ جب حکومت لوگوں کی ضروریات پوری کرے گی اور دیانتداری سے کام کرے گی تو عوام بھی اس کا ساتھ دیں گے پھر دوسری کوئی طاقت اسے الٹ نہیں سکتی۔'
پاکستان میں سویلین حکومت اور فوج میں رابطے کے 'فارمل' اور 'اِن فارمل' دونوں ہی پلیٹ فارم رہے ہیں۔ کسی زمانے میں وزیر اعظم، صدر اور آرمی چیف پر مشتمل ٹرائیکا کی ملاقاتیں اہم تھیں، اس کے بعد نیشنل سیکیورٹی کونسل اور موجودہ دور میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج اپنا موقف سامنے لاتی ہے۔

تجزیہ نگار حسن عسکری کا خیال ہے کہ ان اداروں کہ فعال نہیں رکھا جاتا۔ 'قومی سلامتی کونسل کے اب جا کر تین چار اجلاس ہوئے ہیں ورنہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی غیر رسمی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ جب آپ ایسے غیر رسمی انتظام کرتے ہیں تو اس سے ادارے کمزور ہو جاتے ہیں اور سویلین بالا دستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔' ماضی میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوج کے اقتدار کو غیر ملکی حمایت بھی حاصل رہی یہ حمایت نہ صرف سیاسی تھی بلکہ امداد کی صورت میں بھی آئی۔

تجزیہ نگار اور مصنف شجاع نواز کہتے ہیں کہ جب فوجی حکومت ہو تو پاکستان کی امداد کا گراف بڑھ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان بین الاقوامی صورتحال کو قابو میں نہیں رکھ سکتا، اسے امریکہ اور دوسرے بڑے ممالک کے ساتھ مل کر چلنا ہوتا ہے، ان بڑے ممالک کو فوجی حکومت سے جلد مدد مل جاتی ہے۔' پاکستان میں جہاں گذشتہ 70 برس میں فوج کا سیاسی اثرو رسوخ بڑھا ہے، وہیں چینی اور کھاد کے کارخانوں سے لے کر بیکری تک کے کاروبار میں اس کی شراکت داری میں بھی اضافہ ہوا ہے تو کیا اقتدار کی وجہ کاروبار کی وسعت یا استحکام ہوتا ہے؟

فوج کے کاروبار پر کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ کاروبار میں فروغ کی وجہ یہ بیانیہ ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور فوج اس ملک میں ترقی اور سلامت کے لیے کام کر رہی ہے اس لیے اسے کاروبار کا حق ہے۔ 'سیاست دانوں نے ان کے کاروبار پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی اور انھیں یہ سوچ کر یہ سب کرنے دیا کہ اس طرح سے ان کا منہ بند رہے گا لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک فوج کا قومی سلامتی کا بیانیہ تبدیل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں آمریت کے ادوار میں صحافی بھی جمہوریت کی بحالی اور اظہار رائے کی آزادی کی جدوجہد میں شریک رہے ۔ سینیئر صحافی راشد الرحمان کا کہنا ہے کہ بعض وہ صحافی جو آمریت کا ساتھ دیتے تھے تو انہیں بری نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن آج کل صورتحال افسوس ناک ہے۔


'ٹی وی چینلز اور کسی حد تک اخبارات میں جو بیانیہ چل رہا ہے، اسے آئی ایس پی آر بناتی ہے۔ یہ بیانیہ دانستہ طور پر نہیں تو ڈر یا خوف یا کسی اور وجہ سے صحافیوں نے اپنا لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ تو صحافت کے تقاضے پورے کر رہا ہے اور نہ وہ ذمہ داری جو صحافیوں پر عائد ہوتی ہے ۔' پاکستان میں فوجی ادوار کے دوران آئین میں ترامیم ہوئیں اور ایسی ہی ایک ترمیم کا نشانہ نواز شریف بھی بنے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب 18 ویں آئینی ترمیم کی گئی تو اس وقت فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں شامل کی گئی صادق و امین کی شقیں بھی ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن مسلم لیگ ن نے اس کی مخالفت کی اور بعد میں وہ خود اسی شق کا نشانہ بن گئی ہے۔ آج پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں یہ شقیں ختم کرنا چاہتی ہیں لیکن تحریک انصاف اس کی مخالف ہے۔

انسانی حقوق کی رہنما عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ 'وہ راستے روکنے ہوں گے جو پچھلی آمریتیں چھوڑ کر گئی ہیں۔' اور اس کے علاوہ جو بنیادی انسانی حقوق آئین میں ہیں انہیں مضبوط کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اظہار رائے کے بارے میں آرٹیکل 19 یہ کہتا ہے کہ آپ سب کچھ کہہ سکتے ہیں مگر در حقیقت آپ صرف اپنے گھر والوں کے خلاف بول سکتے ہیں۔ پاکستان میں آپ نہ فوج پر بحث کرسکتے ہیں اور نہ ہی عدلیہ پر بات کر سکتے ہیں۔'

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 

Post a Comment

0 Comments